کیا نیب ترامیم سے نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟

کیس اثاثوں کا تھا جس میں بار بار ثبوت والی شق تبدیل کی گئی، کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں؟ نیب ترامیم کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کے اہم ریمارکس

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا ہے کہ کیا نیب ترامیم سے نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس سے متعلق ہوئی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے اہم ریکارس دیے۔ دنیا نیوز کے مطابق جسٹس اطہرمن اللہ نے دریافت کیا کہ کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں؟ کیا نیب سیکشن 9 اے 5 میں تبدیلی کر کے میاں نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟ میاں نواز شریف کا کیس اثاثوں کا تھا جس میں بار بار ثبوت والی شق تبدیل کی گئی، نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت خیبرپختونخوا اپنے صوبے میں یہ قانون لاسکتی ہے جو پارلیمنٹ نے ترمیم کی؟ وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ صوبائی حکومت ایسا کر سکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں احتساب ایکٹ اس لئے ختم ہوا کہ وہاں نقصان ہو رہا تھا، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے وزراء پریس کانفرنسز کر کے نیب قانون کے خلاف بیانات دیتے رہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کسی قانون کی سزا کو مکمل ختم بھی کر دے تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے، پارلیمنٹ عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہے، اکثریتی فیصلے میں 1 کروڑ روپے کی کرپشن تک نیب کو کارروائی کا کہا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے؟ اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنیٰ نہیں ملنا چاہیے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟ وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ میری رائے بالکل ایسی ہی ہے لیکن اٹارنی جنرل بہتر جواب دے سکتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب تحقیقات کی بات کی، کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے؟ ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں؟ کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔