ہماری لڑائی فوج کے ساتھ نہیں بلکہ شخص واحد کے ساتھ ہے

آج بھی ایک شخص، فرد واحد نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ریاست کو مشکل میں ڈال رکھا ہے، روف حسن کا الزام

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سیکرٹری انفارمیشن پی ٹی آئی رؤف حسن نے کہا ہے کہ ہماری لڑائی فوج کے ساتھ نہیں بلکہ شخص واحد کے ساتھ ہے، آج بھی ایک شخص، فرد واحد نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ریاست کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ انہوں نے نعیم حیدر پنجوتھہ اور انتظار پنجوتھہ کے ساتھ نیوزکانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جج صاحب نے آج فیصلہ سنانے کی بجائے ہائی کورٹ کو خط لکھا کہ یہ کیس کسی اور جج کو بھیجا جائے نہ جانے اس جج کو کیا دھمکیاں دی گئیں کہ اس کیس کا فیصلہ نہ سنائیں کیس دوسرے جج کو دے کر تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے تاکہ خان صاحب اور بشریٰ بی بی رہا نہ ہوں اس وقت تک جب نئے مقدمے بنا لیے جائیں۔
ہم لوگ انصاف کا قتل ہوتے ریاست کو کمزور ہوتے دیکھ رہے ہیں میں نے بارہا کہا اس ملک کی ترقی میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ہے اس کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
اس وقت خان صاحب کے خلاف عدت اور سائفر کے کیس تقریباً ختم ہوچکے ان میں سے آج عدت کے کیس کا فیصلہ آنا تھا لیکن نہیں سنایا گیا توشہ خانہ میں عمران خان کی سزا سسپنڈ ہوچکی اور القادر میں ضمانت ہو چکی ابھی تک ان کو باہر آجانا چاہیے تھا لیکن نہیں آئے ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ ان پر مزید مقدمات قائم کیے جائیں گے۔

اس موقع پر انتظار پنجوتھہ نے کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے خان صاحب نے نئے غداری کے مقدمے بنانے پر کہا کہ یہ مقدمہ لائیو قومی ٹی وی پر دکھایا جائے میں اپنی وکالت خود کروں گا حمود الرحمن کمیشن عمران خان نے نہیں حکومت پاکستان نے بنایا تھا ،خان صاحب نے کہا کہ 71 کے سانحہ کا سب سے بڑا نقصان ہماری فوج کو ہوا وہ نقصان جنرل یحیٰی خان نے پہنچایا جس کی وجہ سے فوج کو خود جنرل یحیٰی خان کو ہٹانا پڑا۔
نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا کہ اس وقت عمران خان صاحب دو کیسوں میں پابند سلاسل ہیں سائفر اور عدت کیس کل سائفر کیس کی سماعت تھی پورے پاکستان میں چھٹی کردی گئی بنتا یہ تھا وہ کیس آج سنا جائے دوسرا آج عدت کیس میں ایک منصوبے کے تحت بجائے رضوان عباسی پیش ہوکر دلائل دیتے عدالت میں شور شرابہ اور لڑائی کی کوشش کی گئی تاکہ کیس ملتوی ہو لیکن ہمارے وکلاء نے تحمل کا مظاہرہ کیا انہوں نے وہ زبان استعمال کی جو قابل برداشت نہیں تھی پھر عین وقت پر جج صاحب کیس سے پیچھے ہٹ گئے اب نہ جانے اس جج پر کتنا دباؤ تھا کہ انہوں نے یہ کام کیا ۔