کیا یہ ملک دوستی ہے یا دشمنی ہے؟ ملک دشمنی کا دوسرا نام غداری ہوتا ہے، ہم نہیں چاہتے کسی کو غداری ڈکلیئر کریں، مرکزی رہنماء ن لیگ طارق فضل چوہدری
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پرتصاویری مہم کا جواب تو دینا ہوگا، کیا یہ ملک دوستی ہے یا ملک دشمنی ہے؟ملک دشمنی کا دوسرا نام غداری ہوتا ہے، ہم نہیں چاہتے کسی کو غداری ڈکلیئر کریں،شیخ مجیب کا موازنہ کس سے کیا جارہا ہے؟ انہوں نے نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹاک شوز میں آج جو باتیں یا ایشوز پر بات ہورہی ہے عوام کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں، ہم ٹریک سے بہت زیادہ ہٹ گئے ہیں، ہمیں ان ایشوز پر بات کرنی چاہیے جن سے ملک دلدل سے نکلے اور بہتری نظر آئے، اداروں کے درمیان تناؤ کی جو کیفیت ہے اس سے بے یقینی اور مایوسی کی صورتحال بن رہی ہے، الیکشن کے بعد کہا جاتا تھا کہ سرمایہ کاری آئے گی، ہر جگہ معیشت کی بات ہورہی ہے، معاشی طور پر ملک مستحکم ہوگا، ان حالات میں ملک مستحکم نہیں ہوسکتا۔
تمام جماعتیں حکومت میں ہیں ، ہماری جماعت مرکز میں ہے تو ہماری کوشش ہے کہ ہم تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں اور بہتری لے کر آئیں،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس لے کر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تک کیا کیا سوشل میڈیا مہم پی ٹی آئی کی طرف سے چلائی گئیں، ججز کی فیملی تک کو نہیں چھوڑا گیا،ان کی توہین ہتک کی گئی ، اس کو رکنا چاہیے۔ عمران خان کے دور میں جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی، پھرکہنا عمران خان ہے تو پاکستان ہے، پھر عمران خان نے کبھی بھی حتیٰ کہ 9مئی جیسے واقعات پر مذمت نہیں کی۔
اداروں پر چڑھائی کی گئی، شہداء کی یادگاروں پر مسمار کیا گیا، یہ وہ واقعات ہیں جس پر پی ٹی آئی کا واضح مئوقف آنا چاہیے۔ ابھی دو تین روز سے عمران خان کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر تصاویر آرہی ہیں، شیخ مجیب کا موازنہ کس سے کیا جارہا ہے؟ اس مہم کا جواب تو دینا ہوگا، کیا یہ ملک دوستی ہے یا ملک دشمنی ہے؟ملک دشمنی کا دوسرا نام غداری ہوتا ہے، ہم نہیں چاہتے کسی کو غداری ڈکلیئر کریں، کیونکہ سیاست میں کسی کو غداری قرار دینے سے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہنے لگتی۔
پروگرام میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ شہبازشریف کا ججز کو کالی بھیڑیں کہنا معاملہ 100فیصد توہین عدالت کی طرف جائے گا، اس کی وجہ کہ اگر وہ جوڈیشری کے بارے عام بات کرتے تو الگ بات تھی لیکن جب انہوں نے کہا کہ چند ججز کی بات کہ عمران خان کے حق میں فیصلے دے رہے ہیں، ان ججز کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کئے جن کو دہرا نہیں سکتا۔
بے شک شہبازشریف نے ان ججز کا نام نہیں لیا لیکن سب کو پتا ہے کن ججز کو مخاطب کیا۔ عدالت کے فیصلوں پر بات ہوسکتی ہے لیکن فیصلے لکھنے والے جج کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنانہیں کرسکتے، اگر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو پھر عدالتوں کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ انہیں توہین عدالت کا نوٹس دینا پڑے گا، اگر شہبازشریف معذرت نہیں کرتے تو سزا بھی ہوسکتی ہے۔