ماضی میں عدلیہ بھی ایگزیکٹو کےدائرہ اختیار میں بڑی مداخلت کرتی رہی ہے، ججز کےخط میں بھی ماضی کا ذکر ہے، سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی حکومت عملدرآمد کرائے گی۔وفاقی مشیر سیاسی امور رانا ثناء اللہ
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) وفاقی مشیر سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ 6ججز کے خط پر مستقبل کا ایسا لائحہ عمل بننا چاہیے کہ کوئی ادارہ دوسرے میں مداخلت نہ کرے،اس سے پہلے عدلیہ بھی دوسرے اداروں اور ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں بڑی مداخلت کرتی رہی ہے، ججز کے خط میں آج یا مستقبل کا نہیں بلکہ ماضی کا ذکر ہے، سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی حکومت عملدرآمد کرائے گی۔
انہوں نے نجی نیوز چینل میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ایک طرف جوڈیشری سائیڈ پر گفتگو ہو، ججز کو نہیں ان کے فیصلوں کو بولنا چاہیے، لیکن دوسری طرف پارلیمنٹ میں تقاریر ہوں، وزیراعظم اس حوالے سے فکرمند ہیں، جوڈیشری کے ساتھ حکومت کا کوئی مقابلہ نہیں بنتا، ہم کیوں ان کے ساتھ مقابلہ کریں، ججز کا اور ان کے فیصلوں کا احترام ہونا چاہیئے، حکومت6ججز کے خط میں رکاوٹ ہے اور نہ سپریم کورٹ کے نوٹس میں حائل میں ہے، سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی اس کے مطابق حکومت عملدرآمد کرائے گی۔
عدلیہ کے معاملات پر مسلم لیگ ن اور وزیراعظم بالکل عدم دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہے، جو بھی پس پردہ معاملہ ہو اس کو پبلک نہیں ہونا چاہیے۔ 6ججز کے خط میں آج یا مستقبل کا ذکر نہیں بلکہ ماضی کی بات ہے، میرا خیال ہے کہ 6ججز کے خط پر مستقبل کا کوئی لائحہ عمل بن جائے تاکہ کوئی ادارہ دوسرے میں مداخلت نہ کرے،اس سے پہلے عدلیہ بھی دوسرے اداروں یا ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں بڑی مداخلت کرتی رہی ہے، یہ بھی سب کے سامنے ہے۔
موجودہ صورتحال میں جس طرح معاملات چل رہے ہیں یہ صورتحال چلنی نہیں چاہیئے۔ موجودہ صورتحال میں بڑا کردار بانی پی ٹی آئی کا ہے کہ سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کو تیار نہیں ہے، اگر وہ تیار ہوتے تو 2018میں بھی کوئی حل نکل سکتا تھا۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اپنے ادارے کے ترجمان ہیں، انہوں نے واضح کہا کہ ہمارے ساتھ کیوں بات کرنی ہے؟سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو آپس میں بیٹھ کر بات کرنی چاہئے۔
وہ خود کہتے ہیں کہ سیاستدان آپس میں مل بیٹھ کر بات کریں۔سیاسی معاملات 2014سے بند گلی ہیں، 2014سے عمران خان کو سیاستدان اہمیت ملی ہے، ان کو معلوم ہوا کہ ان کی ایک سے زیادہ سیٹیں ہیں، تب سے وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا، کسی سے بات نہیں کروں گا۔عمران خان چاہتے کہ پارلیمنٹ ، ٹاک شوز یا پریس کانفرنس سے انقلاب آجائے، دنیا میں کبھی ایسے انقلاب نہیں آیا، انقلاب لانا ہے تو پارلیمنٹ سے باہر آئیں اور 20سال جدوجہد کریں، اس کے برعکس جمہوری طریقے میں بیٹھ کر بات کی جاتی ہے۔