اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے فیصل واوڈا کے خط کا جواب دے دیا

آئین میں جج بننے کیلئے کسی اور ملک کی شہریت یا رہائش رکھنا نا اہلیت نہیں، کسی بھی وکیل سے ہائیکورٹ کا جج بنتے وقت اس سے دہری شہریت کی معلومات نہیں مانگی جاتیں۔ جوابی خط کا متن

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے سینیٹر فیصل واوڈا کے خط کا جواب دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق رجسٹرار آفس کی جانب سے جاری جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان میں جج بننے کے لیے کسی اور ملک کی شہریت یا رہائش رکھنا نااہلیت نہیں ہے، کسی بھی وکیل سے ہائیکورٹ کا جج بنتے وقت اس سے دہری شہریت کی معلومات نہیں مانگی جاتیں جب کہ ہائیکورٹ کی پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی تھی کہ جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ وہ گرین کارڈ رکھتے ہیں۔
جواب میں رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس کی کارروائی میں اس بات کو واضح کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ڈسکس ہوا، سپریم جوڈیشل کونسل نے ڈسکشن کے بعد جسٹس بابر ستار کو بطور جج مقرر کرنے کی منظوری دی، یہ عدالت جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی ڈسکشن کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔
یاد رہے کہ سینیٹر فیصل واؤڈا نے جسٹس بابر ستار کی جانب سے تعیناتی سے قبل گرین کارڈ ہولڈر ہونے کی انفارمیشن فراہم کرنے کا ریکارڈ مانگا تھا، اس حوالے سے گزشتہ ماہ انہوں نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا تھا، جس میں آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات فراہمی کی درخواست کی، آزاد سینیٹر فیصل واوڈا نے جسٹس بابر ستار اور سابق چیف جسٹس کے درمیان خط و کتابت کی کاپی فراہم کرنے کی استدعا کی تھی۔
اس حوالے سے سینیٹر فیصل واوڈا کے خط میں کہا گیا تھا کہ بطور پاکستانی شہری عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں اور ججز کا بے حد احترام کرتا ہوں، جسٹس بابر ستار کے خلاف مہم کے حوالے سے رجسٹرار نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے، پریس ریلیز کے مطابق جسٹس بابر ستار نے اپنے گرین کارڈ سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا، جسٹس بابر ستار اور سابق چیف جسٹس کے درمیان خط و کتابت کی کاپی فراہم کی جائے، آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات فراہمی کیلئے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو درخواست کی ہے۔