ساری جوڈیشری ایک طرف جبکہ چیف جسٹس ایک طرف کھڑے ہیں، یہ شخص پوری جوڈیشری کیخلاف لڑائی کررہا ہے، مطالبہ ہے کہ تحقیقات کرکے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے۔ ترجمان پی ٹی آئی راؤف حسن
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) ترجمان پی ٹی آئی راؤف حسن نے کہا ہے کہ عدلیہ میں مداخلت کے خلاف ساری جوڈیشری ایک طرف جبکہ چیف جسٹس دوسری طرف کھڑے ہیں، یہ شخص پوری جوڈیشری کیخلاف لڑائی کررہا ہے، تمام ججز متفق ہیں کہ کوئی بھی ادارہ عدلیہ میں مداخلت نہ کرسکے، مطالبہ ہے کہ تحقیقات کرکے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت چیف جسٹس ایک طرف جبکہ ساری جوڈیشری دوسری طرف کھڑی ہے۔ یہ شخص پوری جوڈیشری کے خلاف لڑائی کررہا ہے، تمام ججز اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں اعادہ کرنا ہوگا کہ آئندہ کوئی بھی ادارہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہ کرسکے، ہمیں اس کے لئے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے مگر موجودہ چیف جسٹس پتا نہیں کس سمت میں کھڑے ہے۔
راؤف حسن نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے جو خط لکھا گیا اس میں واضح ہے کہ کس طرح خفیہ اداروں کے لوگ جوڈیشری کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ کس طرح ججز پر پریشر ڈال کر مرضی کے فیصلوں کا کہا جاتا ہے۔ کل سپریم کورٹ میں جب سماعت ہوئی تو ملک بھر کی دیگر ہائیکورٹس کے ججز کے اظہار خیال کو بھی پڑھا گیا، اس مداخلت کے خلاف سارے ججز ایک پیج پر ہیں۔
یہ قوم مطالبہ کرتی ہے کہ اس کی صاف وشفاف تحقیقات کرکے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے۔ سابق وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط اور تمام ہائیکورٹ کی طرف سے بھی مداخلت کا بتایا گیا بعض کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں فون آئے کہ ہمیں پتہ ہے آپ کے بچے کہاں پڑھ رہے ہیں کیا ہم نہیں جانتے یہ کون کررہا ہے یہ جو عدت کا کیس تاریخ کا بدترین کیس اس کا فیصلہ اسی طرح کروایا گیا۔
ابوذر سلمان نیازی نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ججوں کی ذاتی معلومات لیک کر رہے ہیں پہلا سوال یہ ہے کہ قانون کو توڑ کر کون لوگ پرائیویسی بریک کررہے کیا کوئی ایسے لوگ ملک چلا رہے جن پر قانون لاگو نہیں ہوتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اپنے کیس میں ان کا مین فوکس تھا کہ ان کی معلومات غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئیں تو کیا یہ باقی ججوں کے لیے نہیں کہ ان کی معلومات کون نکال لے جب تک آپ ایسے فیصلے نہیں کریں گے جو طاقتور لوگوں کو پسند نہیں آتے کوئی نہیں مانے گا کہ عدلیہ آزاد ہے۔