اسلام آباد 🙁 نیوز ڈیسک )اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل منصور اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ پیش کی ۔
عدالت نے پوچھا کہ اس پٹیشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، یہ واضح ہے سٹیٹ عدالتیں کسی دہشت گرد کی پروٹیکشن نہیں کریں گی، سوال تب اٹھتا ہے جب قانون سے ماورا کوئی اقدام ہوتا ہے ، پولیس جیسی بھی کارروائی کرتی ہے اس کو تو ہم دیکھ لیتے ہیں ٹھیک ہوئی یا نہیں۔
درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری نے بتایا کہ جس دن نگران وزیراعظم اس عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے اسی روز ایک بلوچ طالب علم اٹھایا گیا تھا ، اگلے دن اسے راولپنڈی سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ پولیس والوں کو تو آرام سے معطل کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جو کرتے ہیں سب کے سامنے کرتے ہیں ، کیا ایجنسیز میں کوئی جواب دہ ہے خود احتسابی کہاں پر ہے جو نظر آئے ؟ جبری گمشدگی کمیشن کے خلاف میری رائے اسی لئے ہے کیونکہ یہ انہی کے ساتھ بیٹھ کر کام کر رہے ہوتے ہیں جن پر الزام ہوتا ہے ، جو ادارے قانون کے ماتحت ہیں وہ تو ریگولیٹ ہو جاتے ہیں ، جو قانون سے ماورا کارروائی کرتے ہیں ان کی ریگولیشن کیا ہے؟
فاضل جج نے کہا کہ جن کا کوئی پیارا لاپتہ ہے وہ کوئی عام آدمی، وکیل یا جج کا رشتہ دار ہو یہ عمل ان کے اندر نفرت پیدا کرتا ہے ، ایک گھر کا مرد ہے اس کا بھائی لاپتہ ہے اس کی ماں بہن بیٹی پر کیا گزر رہی ہے، پولیس تمام اداروں سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ وہ کارروائی سب کے سامنے کرتے ہیں ٹھیک ہو یا غلط ، وفاقی حکومت وزارت دفاع سے پوچھ کر بتا دیں ایجنسیز کے اندر کیا خود احتسابی کا عمل ہے ؟ ٹھیک ہے ورکنگ میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں وہ جواب دہ نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اگر کوئی دہشت گرد ہے تو پرچہ دیں کارروائی کریں لیکن ماورائے عدالت کارروائی نہ کریں ، ایجنسیز کا کردار کسی قانون کے تحت ہو گا، جس طرح ایف آئی اے اور دیگر اداروں کا ہے ، ہر ادارے نے اپنے اختیار کے اندر رہ کر کام کرنا ہے، عدالت نے بھی اپنے اختیار کے اندر رہ کر کام کرنا ہے ، قانون کے مطابق کسی بھی معاملے کو حل کرنے کے ہزار ایشوز ہیں، ایک کمیٹی بنائی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی آئی بی ، ڈی جی ایم آئی تھے ان سے متعلق بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس کے حوالے سے ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ آپ جو آرڈر میں ترمیم کرانا چاہتے ہیں متفرق درخواست دائر کریں عدالت کو مطمئن کریں ، کمیٹی بنانے کے حوالے سے کوئی اعتراض ہے تو وجوہات بتا کر عدالت کو مطمئن کریں ، پٹشنرز کی وکیل بتا رہی ہیں جس دن وزیراعظم یہاں بیان دے کر گئے اسی روز ایک بندے کو اٹھا لیا گیا ، اس سے پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔
بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلباء کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت 21 مئی تک ملتوی کردی۔