8 فروری کے فراڈ الیکشن کی بینی فشری پیپلزپارٹی، ن لیگ اور ایم کیوایم ہیں

کچھ وجوہات کی بناء پر ان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ نہیں کھولا جاسکتا، مفاہمتی عمل سے پہلے سچ سامنے آنا ضروری ہے، مینڈیٹ کی واپسی تک ان کے ساتھ بیٹھنے کی کوئی جرات نہیں کرسکتا۔ ترجمان پی ٹی آئی راؤف حسن

لاہور ( نیوز ڈیسک ) پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان راؤف حسن نے کہا ہے کہ 8 فروری کے فراڈ الیکشن کی بینی فشری پیپلزپارٹی، ن لیگ اور ایم کیوایم ہیں، کچھ وجوہات کی بناء پر ان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ نہیں کھولا جاسکتا، مفاہمتی عمل سے پہلے سچ سامنے آنا ضروری ہے،مینڈیٹ کی واپسی تک ان کے ساتھ بیٹھنے کی کوئی جرات نہیں کرسکتا۔
انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں ڈائیلاگ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا لیکن کچھ وجوہات کی بناء پر نہیں کھولا جاسکتا، 8فروری کے الیکشن پر کوئی دو رائے نہیں کہ الیکشن چوری نہیں ہوا، مفاہمتی عمل سے پہلے ایک چیز سچ بولنا ہوتا ہے،سچ سامنے آنا ضروری ہے۔ جب تک سچ نہیں بولاجاتا اس وقت تک تین جماعتوں کے ساتھ نہیں بیٹھا جاسکتا، پیپلزپارٹی، ن لیگ اور ایم کیوایم تینوں جماعتیں مینڈیٹ چوری میں ملوث ہیں،تینوں جماعتیں فراڈ الیکشن کی بینی فشری ہیں، ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا جن جماعتوں نے مینڈیٹ چوری کیا ان سے بات نہیں ہوسکتی۔
ہماری فارم 45سے متعلق درخواستیں جمع ہیں، ان کے مطابق سچ سامنے آئے گا تو بات ہوسکتی ہے۔ عمران خان نے پہلے کہا تھا کہ ہم مقتدر جماعتوں سے بھی بات کرنا چاہتے ہیں، مقتدر حلقوں سے بات چیت کیلئے بھی سخت شرائط ہیں، 76سالوں سے مقتدرہ موجود رہی ہے، یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس سے لڑائی نہیں کرسکتے۔مینڈیٹ چوری کی واپسی تک کوئی بھی حکومتی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کی جرات نہیں کرسکتا۔
راؤف حسن نے کہا کہ ہمیں عدالتوں سے کچھ نہیں ملا، 6ججز کا خط کھلی کتاب ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اوپر دباؤ ہے ہم پارلیمنٹ کے اندر اور قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں، 28اپریل سے ہماری احتجاج تحریک شروع ہوجائے گی، پھر قائدین بھی اس کو نہیں روک سکیں گے۔میری صاحب اقتدار سے درخواست ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں، معاشی صورتحال ایسی ہے کہ غیرملکی سفیر کہتے 18ارب ڈالر بھی لے لو لیکن واپس کیسے کرنے ہیں؟ فی الحال ابھی تک کہیں سے کوئی برف نہیں پگھلی، میرا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان سے بات کرنا پڑے گی، عمران خان پاکستان کا واحد مقبول ترین لیڈر ہے۔
شروع میں عمران خان پر پریشر تھا، جیسے نوازشریف اور آصف زرداری پر تھا، کہ چپ کرکے بیٹھ جائیں واپس لے آئیں گے، مطلب طاقت کا محور ہمارے پاس ہے ہم جب بلائیں گے لائیں گے تو ہم کریں گے، ہم اس کے خلاف ہیں، ہمارا مئوقف طاقت کا سرچشمہ اللہ کے بعد عوام ہیں، ہم کہتے ہیں آپ درمیان سے ہٹ جائیں۔ آپ کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے یہ بہت بڑا فریضہ ہے۔