پشاور: ( نیوز ڈیسک ) فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کلین چٹ دے دی۔ ذرائع کے مطابق فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ 149 صفحات پر مشتمل ہے۔ فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں قائم کیا گیا تھا، سابق آئی جی اختر علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن نے فیض آباد دھرنے سے جڑے محرکات کا بغور جائزہ لے کر سفارشات تیار کیں۔
ذرائع کے مطابق انکوائری کمیشن نے تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے سے جڑے محرکات کا جائزہ لے کر سفارشات تیار کیں۔
رپورٹ میں اسلام آباد پولیس، وزارت داخلہ، پنجاب حکومت، آئی ایس آئی اور آئی بی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ رپورٹ میں سابق وزیرقانون زاہد حامد سے متعلق معاملات کی تفصیلات بھی درج ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ فیض حمید نے بطور میجر جنرل ڈی جی (سی) آئی ایس آئی معاہدے پر دستخط کرنے تھے، اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے فیض حمید کو معاہدے کی اجازت دی تھی۔
فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کے مطابق فیض حمید کے دستخط پر وزیراعظم شاہد خاقان، وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی اتفاق کیا تھا۔
رپورٹ میں کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنانے پر زوردیا اور کہا کہ پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں کمزوریوں کا بھی احاطہ کیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہوگا، حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی مارچ کو لاہور میں روکنے کے بجائے اسلام آباد جانے کی اجازت دی، جڑواں شہروں کی پولیس میں رابطے کے فقدان کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔
فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے مظاہرین کی قیادت تک رسائی کیلئے آئی ایس آئی کی خدمات حاصل کیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 25 نومبر 2017 کو ایجنسی کے تعاون سے معاہدہ ہوا جس پر مظاہرین منتشر ہوگئے، دھرنے کے دوران فوجی افسروں، نوازشریف اور وزراء کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی گئیں، سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے خلاف حکومت نے ایکشن لینے میں کوتاہی برتی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنے کے دوران شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے، اس وقت کی ملکی قیادت نے کسی ادارے یا اہلکار کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا، سویلین معاملے میں فوج یا ایجنسی کی مداخلت سے ادارے کی ساکھ شدید متاثر ہوتی ہے، فوج کو تنقید سے بچنے کیلئے عوامی معاملات میں ملوث نہیں ہونا چاہیے، عوامی معاملات کی ہینڈلنگ آئی بی اور سول ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب غافل اور کمزور رہی جس کے باعث خون خرابہ ہوا، عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کیلئے امن کو اسٹریٹجک مقصد بنانا ہوگا، ریاست آئین، انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ نہ کرے۔
کمیشن نے تجویز دی کہ اسلام آباد تعیناتی سے قبل پولیس افسران کو دشوار علاقوں میں تعینات کیا جائے، امن عامہ حکومت کی ذمہ داری ہے، دیگر شعبوں کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے، پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے زیرو ٹالرینس پالیسی لازمی ہے۔