اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو مشکوک خطوط موصول

ایک جج کے سٹاف نے خط کھولا تو اس کے اندر پاؤڈر تھا، ڈرانے دھمکانے والا نشان بھی موجود ہے، کسی خاتون نے بغیر اپنا ایڈریس لکھے خط ہائیکورٹ ججز کو ارسال کیے۔ سینئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے بعد نئی صورت حال سامنے آئی ہے جہاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوگئے۔ سینئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر کے مطابق عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک جج کے اسٹاف نے خط کھولا تو اس کے اندر پاؤڈر موجود تھا، خط کے اندر ڈرانے دھمکانے والا نشان بھی موجود ہے، کسی خاتون نے بغیر اپنا ایڈریس لکھے خط ہائیکورٹ ججز کو ارسال کیے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ اسلام آباد پولیس کی ایکسپرٹس کی ٹیم اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئی ہے، ابھی ایکسپرٹس کی ٹیم تحقیقات میں مشغول ہے اور یہ پتا چلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاؤڈر کیا ہے؟۔

جبکہ دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے لکھے جانے والے خط کا از خود نوٹس لیا ہے، عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا، جو بدھ کے روز ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کے حوالے سے لکھے گئے خط کے معاملے کی سماعت کرے گا، چیف جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں بننے والے لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا، انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کے زیر قیادت کوئی بھی کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کو ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم کردے گا، آئین کا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں سپریم کورٹ کو دائرہ اختیار استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔
واضح رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دبا میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا، اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عیسی سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔