اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ عمر ایوب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر کر دیئے گئے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے تقرر کا مرحلہ مکمل ہو گیا، سپیکر ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ عمر ایوب کو اپوزیشن لیڈر ڈکلیئر کر دیا جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
عمر ایوب نوٹیفکیشن اجراء کے بعد چیمبر میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
اپوزیشن لیڈر کیلئے نامزد امیدوار عمر ایوب نے سپیکر سے ملاقات کی جس میں ایاز صادق نے عمر ایوب کی درخواست کی تصدیق کر دی، عمر ایوب قومی اسمبلی میں آزاد ارکان کے اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور قیادت کا مشکور ہوں، سپیکر قومی اسمبلی نے بلایا تھا اور ہماری موجودگی میں سکروٹنی کی۔
متحد اپوزیشن کیلئےاتحادیوں کو ساتھ لیکر چلیں گے: عمر ایوب
نومنتخب اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد عمر ایوب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحد اپوزیشن کرینگے اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلیں گے۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پہلی ترجیح پاکستان کی سالمیت اور عوام کے لئے کام کرنا ہے، مہنگائی لاقانونیت بجلی وغیرہ کے ایشوز پر بات کریں گے، لاقانونیت سے ملک اور معاشرے نہیں چلتے۔
انہوں نے کہا کہ چھ ججز کے خط پر حکومت نے پھرتی دکھائی، ہمارا مطالبہ ہے کہ 6 ججز کے خط پر فل کورٹ بنایا جائے، جب تک آئین و قانون نہیں ہوگا ملک نہیں چل سکتا۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ تمام اسیران رہنماؤں کے حق میں آواز اٹھاؤں گا، قومی اسمبلی میں فارم 47 کی بیساکھیوں والی حکومت ہے اسے مسترد کرتے ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ ہماری 180 سیٹیں تھیں جن کی واپسی کےلئے کوشش کرتے رہیں گے، یہ حکومت مشورہ دینے کے قابل نہیں ہے، یہ حکومت خود کو عقل کل سمجھتی ہے،اس بار بھی جی ڈی پی گروتھ نہ ہونے کے برابر ہوگی، یہ حکومت ریفارمز کا ایجنڈا پورا نہیں کرسکے گی۔
انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو کینیڈا میں سفیر لگانے کی پیشکش ہے، سکندر سلطان راجہ اپنا بوریا بستر باندھ رہے ہیں، سکندر سلطان راجہ کو حکومت سے جو چٹ ملتی ہے وہ وہی فیصلہ کرتےہیں۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا خیبرپختونخوا میں سینیٹ الیکشن روکنا قابل مذمت ہے، الیکشن کمیشن نے ہمارے راستے میں ہر رکاوٹ ڈالی لیکن اللہ کی مدد سے ہم جیت گئے۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، فوجی عدالتوں کے فیصلے چیلنج کرینگے، فوجی عدالتوں کے تمام فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں ریورس ہوں گے۔