عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے میں ایک ڈیڑھ سال لگے گا

2700 ارب روپے کے ٹیکس کیسز زیرالتواء ہیں، ہزاروں ارب روپے کی ٹیکس بجلی گیس چوری ہورہی ہے، یہ چیزیں درست کریں گے تو عوام کو ریلیف ملےگا۔ وزیردفاع خواجہ آصف کی میڈیا سے گفتگو

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے میں ایک ڈیڑھ سال لگے گا، 2700ارب روپے کے ٹیکس کیسز زیرالتواء ہیں، ہزاروں ارب روپے کی ٹیکس بجلی گیس چوری ہورہی ہے، یہ چیزیں درست کریں گے تو عوام کو ریلیف ملے گا۔ انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے افغانستان کا سامان بھارت بھیجنے کی اجازت دی، ہم نے افغانستان کیلئے جنگیں لڑیں اور قربانیاں دیں، پاکستان میں حالیہ دہشتگردی کا منبہ افغانستان میں ہے، جب تک افغانستان ٹی ٹی پی کی پناگاہیں ختم نہیں کرے گا اور سہولتکاری نہیں چھوڑے گا، تب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا، میں خود وفد لے کر افغانستان گیا تھا، افغان حکومت سے درخواست کی کہ آپ پر ہمسایہ ہونے کے ناطے فرض ہے دہشتگردی کو روکیں۔
افغانستان کی طرف سے دیاجانے والا حل قابل عمل نہیں تھا، افغان حکومت کے دن بدن بدلتے رویہ سے ہمارے پاس ان کیلئے آپشن محدود ہورہے ہیں، جس طرح ساری دنیا میں بارڈر ہیں، پاک افغان بارڈر کو بھی ویسے ہی ہونا چاہیئے، لوگ ویزہ لے کر پاکستان آئیں اور کاروبار کریں۔ فری کھاتے جو لوگ بارڈر کراس کرتے ہیں ان میں دہشتگرد بھی ہوتے ہیں، بارڈر کی جو بین الاقوامی حیثیت ہوتی ہے اس کا حترام نہیں کیا جارہا۔
انہوں نے کہا کہ چینی ٹیم پر حملے کی تحقیقات جاری ہیں، تحقیقات میں چینی ٹیم بھی شامل ہے کچھ لیڈز ملی ہیں، پاک چین ٹیمیں مل کر اس دہشتگردی کا سراغ ڈھونڈیں گی، آنے والے دنوں میں اس دہشتگردی کا سدباب میں بھی کریں گے۔ وزیردفاع نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام چل رہا ہے ہم اہداف بھی پورے کررہے ہیں، عوام کو ریلیف دینے میں ایک ڈیڑھ سال لگے گا، 2700ارب ٹیکس کے کیسز زیرالتواء ہیں، ٹیکس بجلی گیس میں ہزاروں ارب روپے کی چوری ہورہی ہے، یہ چیزیں درست کریں گے تو عوام کو ریلیف ملے گا، آئندہ 6 ماہ میں ہمارے اقدامات سے عوام کو ریلیف ملے گا۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا ایران سے گیس نہ لینے کا ہمیں متبادل بتائے، ہم عالمی مارکیٹ سے مہنگی ایل پی جی خریدتے ہیں، اگر کوئی ہمسایہ اچھے نرخوں پر گیس دیتا ہے تو فائدہ اٹھاناہمارا حق ہے، امریکا کو ہماری معاشی صورتحال سمجھنا ہوگی۔