پی ٹی آئی نے ججز خط پر ازخودنوٹس میں 7 رکنی بنچ کی تشکیل پر اعتراض کردیا

ہمیں 7 رکنی بنچ قبول نہیں اس پر فل کورٹ بنایا جائے، اپنی پسند کے ججز کے ذریعے پسند کا فیصلہ نہیں کرنے دیں گے، کیس کی کاروائی ہرصورت براہ راست نشر کی جائے۔ ترجمان پی ٹی آئی راؤف حسن کا مطالبہ

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان تحریک انصاف نے ججز خط پر ازخودنوٹس میں 7 رکنی بنچ کی تشکیل پر اعتراض کردیا،ترجمان پی ٹی آئی راؤف حسن نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں 7 رکنی بنچ قبول نہیں اس پر فل کورٹ بنایا جائے۔انہوں نے نیوزکانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج جسٹس تصدق گیلانی نے خود کو اس کمیشن سے الگ کرتے ہوئے جواب میں لکھا کہ جوڈیشل کمیشن کے تحت انکوائری کرائی جائے، جسٹس تصدق جیلا نی نے وہی لکھا جو پی ٹی آئی اور وکلاء کررہے تھے، بلکہ صرف 184تھری حل ہے، آج چیف جسٹس نے سات جج چن کر بنچ بنایا جو اس کیس کو دیکھے گا مرضی کے جج چن کر مرضی کا فیصلہ ہم نہیں ہونے دینگے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فل کورٹ بنا کر کیس سنا جائے، چیف جسٹس کو براہ راست سماعت کا بڑا شوق ہے امید ہے ازخود نوٹس کیس کی کاروائی بھی ہرصورت براہ راست نشر کی جائے گی۔
سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ آج تک کبھی ہماری عدلیہ آزاد نہیں رہی ہماری عدلیہ آج دنیا میں 138 ویں نمبر پر اس لیے ہے کہ اس کو آزاد کبھی کام نہیں کرنے دیا گیا، ہمارے چاروں ہمسائیوں کا نظام عدل، معیشت ہم سے بہتر ہے۔ یاد رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججزکے خط پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے لکھے جانے والے خط کا از خود نوٹس لے لیا ہے، عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے، جو بدھ کے روز ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کے حوالے سے لکھے گئے خط کے معاملے کی سماعت کرے گا، چیف جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں بننے والے لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا، انہوں نے کہا کہ حکومت کے زیر قیادت کوئی بھی کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کو ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم کردے گا، آئین کا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں سپریم کورٹ کو دائرہ اختیار استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔