’اور میاں نواز شریف کہتے ہیں مجھے لاڈلہ نہ کہو‘

قائد ن لیگ کی بریت پر چوہدری مونس الٰہی کا طنزیہ تبصرہ

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں قائد مسلم لیگ ن کی بریت پر چوہدری مونس الٰہی کا طنزیہ تبصرہ آگیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو بری کر دیا ہے جب کہ نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی جس کی بنیاد پر عدالت نے یہ معاملہ نمٹا دیا، عدالتی فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے قائد ن لیگ نواز شریف کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، میں نے معاملات اللہ پر چھوڑے تھے، اللہ تعالیٰ نے آج سرخرو کیا ہے۔
اسی معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء چوہدری مونس الٰہی کی جانب سے بھی تبصرہ کیا گیا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک بیان میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ’اور میاں نواز شریف کہتے ہیں مجھے لاڈلہ نہ کہو‘۔

بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی، آج کی سماعت میں اپنے دلائل میں ن لیگ کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ مریم نواز اور صفدر پر نواز شریف کی اعانت جرم کا الزام تھا، عدالت نے شریک ملزمان کی اپیل منظور کر کے بری کیا، ہائیکورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے، نیب آرڈیننس میں بے نامی دار کی تعریف کی گئی۔
اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی، سزا معطلی فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا، سزا معطلی کے فیصلے سے تاثر ملتا تھا کہ جیسے اپیل منظور کر لی گئی بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی۔ جسٹس گل حسن اورنگزیب نے امجد پرویز سے مکالمہ کیا کہ ’ہماری معاونت کریں‘، جس پر وکیل ن لیگ نے کہا کہ ’ظاہر کردہ آمدن کے ساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اس کی قیمت کیا تھی؟ نیب کو آمدن اور اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے تقابل پیش کرنا تھا، اس کے بعد یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں، تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ’پراسیکیوشن نے سب سے پہلے کیا ثابت کرنا ہوتا ہے؟‘ امجد پرویز نے جواب دیا کہ پراسیکیوشن نے سب سے پہلے ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کرنا ہوتا ہے، اُس کے بعد پراسیکیوشن نے زیرکفالت اور بےنامی داروں کو ثابت کرنا ہوتا ہے، پراسیکیوشن نے پھر آمدن سے زائد اثاثوں کا تعین کرنا ہوتا ہے، پراسیکیوشن نے ذرائع آمدن کی اثاثوں سے مطابقت دیکھنی ہوتی ہے، نیب میاں نواز شریف پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک بھی ثابت نہیں کر سکا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ ’یہ پراپرٹیز کیا مختلف اوقات میں ایکوائر کی گئیں؟ اس کے جواب میں وکیل نے بتایا کہ 1993سے 1996 کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں، ان پراپرٹیز کے حوالے سے اپیل کنندہ کا کوئی تعلق نہیں، پراسیکیوشن نے ریفرنس میں نہیں بتایا کہ ان پراپرٹیز سے کیا تعلق ہے، واجد ضیا ء نے تسلیم کیا کہ نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرنے کے شواہدنہیں، فرد جرم میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اثاثے ظاہر کردہ اثاثوں کے مطابق نہیں، کورٹ نے مفروضے پر سزا دی اور فیصلے میں ثبوت کے بجائے عمومی بات لکھی، عدالت نے کہا کہ مریم نواز بینفشل اونر تھیں اور نواز شریف کے زیر کفالت تھیں، لکھا گیا کہ بچے عمومی طور پر والد کے ہی زیرکفالت ہوتے ہیں، عدالت نے کہا کہ بچے عمومی طور پر والد کے زیر کفالت ہوتے ہیں۔
اس پر عدالت نے قرار دیا کہ اس عدالت نے ایک فیصلہ دیا کہ بےنامی کیلئے 4 مندرجات کا ثابت ہونا ضروری ہے، ان چاروں میں سے ایک بھی ثابت نہیں ہوتا تو وہ بےنامی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔