بل واپس بھیجتے وقت کسی تحریری تبصرے یا رائے کی ضرورت نہیں، بل مقررہ مدت کے بعد خودبخور قانون نہیں بن سکتا۔ پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر محمد علی سیف کا بیان
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر محمد علی سیف نے صدرِ مملکت کے ٹویٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ صدر کے عہدے پر قبضے کی سازش کی جا رہی ہے۔انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ قانون سازی کے لیے صدرِ مملکت کی منظوری ضروری ہے، صدر آرٹیکل 75 (1) کے تحت بل کو منظور کیے بغیر واپس بھیج سکتے ہیں۔بل واپس بھیجتے وقت کسی تحریری تبصرے یا رائے کی ضرورت نہیں۔
آرٹیکل 75 (1) کے تحت صرف پیغام دینا ہوگا کہ بل واپس کیا جا رہا ہے، بل مقررہ مدت کے بعد خود بخود قانون نہیں بن سکتا۔خودبخود قانون بننا مشترکہ پارلیمانی منظوری کے بعد کا عمل ہے۔صدر کی بل کی منظوری سے انکار کے بعد کسی مزید تحریری وضاحت کی ضرورت نہیں رہی۔بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ترامیم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی، دوبارہ پارلیمانی عمل سے گزارنا پڑے گا۔
سپریم کورٹ کو قانون سازی کے آئینی عمل کی پامالی کا نوٹس لینا چاہئیے۔دونوں ترامیمی قوانین انسانی حقوق سے متصادم ہونے کے باعث آرٹیکل 8 کے منافی ہے۔ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہو چکی ہیں۔ فیصلہ آنے تک قانون نہیں بن سکتا۔اس قانون سازی کے پیچھے بدنیتی کارفرما ہے۔یاد رہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ، آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے قانون بننے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے، گزٹ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ صدرکی جانب سے بل کی توثیق ہوگئی ہے، گزٹ نوٹیفکیشن پر 18 اگست کی تاریخ درج ہے۔
جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کی تھی۔ صدر علوی کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ اللّٰہ گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔ صدر کے مطابق میں ان بلز سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے اپنے عملے کو کہا کہ بل کو بغیر دستخط کے واپس بھیجیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عملے سے کافی بار تصدیق کی کہ بلز بغیر دستخط کے واپس بھیج دیے گئے ہیں۔