اسلام آباد: (نیوز ویب ڈیسک) صدر مملکت کے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے بیان نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا، سیاست میں ہلچل مچ گئی۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی کے بیان پر سیاستدانوں کا ردعمل سامنے آگیا، مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر (ایکس) پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ بات ناقابل یقین ہے، اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ صدر مستعفی ہوں، صدر مؤثر انداز میں دفتری کام کرنے میں ناکام رہے ہیں اللہ ہماری مدد کرے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کھل کر بات کریں، اگر بلوں سے اختلاف تھا تو انہوں نے کیوں اپنے اعتراضات درج نہ کیے؟ بل ہاں یا ناں کے بغیر واپس بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟
عرفان صدیقی نے کہا کہ میڈیا پر خبریں آنے پر بھی وہ 2 دن کیوں چپ رہے؟ ڈاکٹر عارف علوی بولے بھی تو معاملہ اور الجھا دیا، اگر ان کا سٹاف بھی ان کے بس میں نہیں تو مستعفی ہوکر گھر چلے جائیں۔
سابق وفاقی وزیر شیری رحمان نے ڈاکٹر عارف علوی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں ان کی ناک کے نیچے بلز پرکوئی اور دستخط کرتا ہے؟ صدر کی وضاحت ان کے صدارتی منصب سنبھالنے کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے، اگر ایسا ہی ہے تو صدرکو اس عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا چاہیے، اگر آپ کا عملہ آپ کے کہنے میں نہیں تو آپ صدارتی منصب چھوڑ دیں۔
تحریک انصاف کی حکومت میں وہ صدر ہاؤس کو آرڈیننس فیکٹری کے طور پر چلاتے رہے، کیا اس وقت بھی آرڈیننسز پر کوئی اور دستخط کر کے واپس کیا کرتا تھا؟ صدر مملکت اپنے وضاحتی بیان کے بعد صدارت کے آئینی عہدے پر رہنےکے اہل نہیں رہے۔
سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا صدر کے ٹویٹ نے قانون سے زیادہ حقیقت پر مبنی سوالات کو جنم دیا ہے، آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، حقائق پر انکوائری سینیٹ کی پورے ایوان کی کمیٹی کو کرنی چاہیے۔
رضا ربانی نے کہا صدر کی طرف سے لگائے گئے الزامات بہت سنگین ہیں اور اس کے پورے نظام پر دور رس اثرات ہیں، اگر تحقیقات سے پتہ چلتا ہے صدر نے حقائق کو غلط انداز میں پیش کیا ہے تو ان کے خلاف آئین اور قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایکس پر جاری پیغام میں کہا یہ تو ایک نیا پنڈور باکس کھل گیا ہے، اگر صورت حال واقعی ایسی ہی ہے جیسا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا ہے تو یہ ریاست پاکستان، پارلیمنٹ اور قانون سازی کے ساتھ ساتھ 24 کروڑ پاکستانیوں کی توہین ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے مزید کہا معاملات ایک دفعہ پھر عدالتوں میں جائیں گے، ملک کے اعلیٰ ترین منصب کے اس حال سے پاکستان کے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتاہے، اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔
آفتاب خان شیرپاؤ نے کہا صدر مملکت کی معاملہ کو نیا رخ دینے کی کوشش نہایت قابل مذمت اقدام ہے، صدر نےاس عمل سے اپنے عہدے کی بے توقیری کی۔ غیرذمہ دارانہ بیان سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا باعث بنے۔
جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے صدر کے بیان پر ردعمل میں کہا عارف علوی نے صدارت کے اہم منصب پر بیٹھ کر اپنے لیڈر سے بھی بڑا جھوٹ بولا ہے اور بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا پارلیمنٹ نے جو بل پاس کئے وہ کوئی ایک فرد کی خواہشات پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ ملکی اور قومی مفاد میں ہوتے ہیں، بلز پر دستخط نہ کرنا یا انہیں روکے رکھنا بہت بڑی خیانت ہے، عارف علوی نے ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے، ایسے قومی مجرم کو صدارت کے منصب پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ فوری طور پر مستعفی ہونا چاہئے۔
ترجمان جے یو آئی اسلم غوری نے کہا صدر علوی فوری مستعفی ہوں، ارکان سینٹ پر مشتمل کمیٹی اس ٹویٹ کی تحقیقات کرے۔
سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا صدر عارف علوی نے ثابت کردیا وہ پاکستان کے نہیں ٹائیگر فورس کے صدر تھے، آخری وقت میں انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام شامل کررہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما سعیدغنی نے میڈیا سے گفتگو ہوئے کہا 28 گھنٹے بعد صدر کو ہوش آیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ کچھ غلط ہوگیا ہے، ثابت ہوگیا پی ٹی آئی نے انتشار کی سیاست کوجنم دیا۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا صدر بل پر دستخط کر کے دس دن میں واپس نہیں بھجتے تو اس بل کو پاس سمجھا جاتا ہے، یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہے، ٹویٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔