اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) عدالت نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں 342 کا بیان قلمبند کروانے کیلئے کل ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
دوران سماعت سابق وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہائیکورٹ میں معاملہ پینڈنگ تھا اور یہاں کارروائی چلائی جاتی رہی، چیئرمین پی ٹی آئی کو ہائیکورٹ کی ڈائری برانچ سے نیب نے اٹھایا، اگلے دن پولیس لائن میں عدالت لگا کر پیش کر دیا گیا، غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا اور اس عدالت میں پیش کیا گیا، پولیس لائن پیشی پر فرد جرم عائد کی گئی۔
وکیل خواجہ حارث نے مزید کہا کہ فرد جرم کی کارروائی پر ہمارے تین اعتراضات ہیں، جس پر جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ یہ اسی دن کا واقع ہے جب فرد جرم عائد ہوا اور آپ کی جانب سے کہا گیا کہ اٹھیں اٹھیں، الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے تصدیق کرتے ہوئے کہا جی اسی دن کا واقعہ ہے جب فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سیشن عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے سامنے فرد جرم بھی نہیں پڑھی، میں نے کبھی سماعت کا بائیکاٹ نہیں کی، ایسا کہہ بھی کیسے سکتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی پر کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوا، میں بار بار کہتا ہوں، جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ کیا آپ اپنا افیڈیوٹ جمع کروائیں گے کہ فرد جرم عائد نہیں ہوا؟، کیا افیڈیوٹ جمع کروا سکتے ہیں کہ فرد جرم آپ کے سامنے نہیں پڑھا گیا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا فرد جرم عائد کرتے وقت جرم چیئرمین پی ٹی آئی کو پڑھایا گیا۔
وکیل خواجہ حارث نے مزید کہا کہ افسوس ہوا تھا کہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا اور سیشن عدالت میں سماعت جاری رہی، فرد جرم کے حوالے سے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کا حق روکا گیا ہے، ان کو سیشن عدالت کی پولیس لائنز منتقلی پر بھی اعتراض ہوا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کو غیر قانونی طور پر گرفتار کر کے فرد جرم کیلئے سیشن عدالت پیش کیا گیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا جب ہم عدالت سے باہر چلے گئے تو فرد جرم اس کے بعد پڑھا گیا، 7 دن دئیے گئے تھے کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے، میں نے درخواست دی کہ سماعت پیر تک ملتوی کی جائے لیکن وہ ہماری استدعا مسترد کی گئی، ہائیکورٹ نے سات دن دئیے اور اس عدالت نے تیسرے دن فیصلہ کر دیا، اس عدالت نے 15 منٹ میں فیصلہ جاری کر دیا۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے پر سماعت کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھایا، جس پر جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کیا سیشن عدالت نے آپ کو زبردستی کہا تھا کہ قابل سماعت ہونے کے معاملے پر دلائل دیں؟ آپ دلائل بھی دیتے رہے، چائے بھی پیتے رہے، یہاں جونیئر وکیل بھی موجود ہیں، ایمانداری دکھائیں، وکیل خواجہ حارث نے جواب میں کہا میں ایمانداری دکھا رہا ہوں، جج ہمایوں دلاور نے دوبارہ کہا آپ ایمانداری نہیں دکھا رہے، کچھ اور دکھا رہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا آپ ہمیشہ تاریخیں گنتے ہیں، چھٹیوں کو کون گنتا ہے، عید اور عاشورہ کی چھٹیوں میں کیسے وکلاء سے کام کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟، کیا توشہ خانہ کیس میں جانبداری نظر نہیں آرہی؟، چیئرمین پی ٹی آئی کے دماغ میں عدالت کی جانب سے ایسا تاثر بنا دیا گیا ہے، ان کا عدالتی حق متاثر کیا جا رہا ہے۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے گواہان سے بیان کا ریکارڈ مانگا تھا، سیشن عدالت کے فیصلوں کے حوالے سے مختلف عدالتوں میں ہم بھاگ رہے ہیں، موجودہ وقت میں سیشن عدالت کے حوالے سے 7 اپیلوں کی درخواستیں ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے سامنے ایک تاثر ہے کہ سیشن عدالت جلد فیصلہ سنا کر چاہتی ہے کہ تمام اپیلیں غیر موثر ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں آج فیصلہ سنا دوں گا، کل نہیں سنوں گا، کل فیصلہ ہو جائے گا، سیشن عدالت نے خود ہی مجھے گواہان کے بیان ریکارڈ کرتے وقت نمائندہ مقرر کر دیا، ایسے حالات میں سیشن عدالت سے انصاف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے دلائل
خواجہ حارث کی جانب سے دائر درخواست کی مخالفت میں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ دو ٹرانسفر کی درخواستیں اور 5 اپیلیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا ہیں، تمام درخواستوں اور اپیلوں کا مقصد سیشن عدالت میں اسٹے مانگنے کا ہے، سپریم کورٹ سے ایک دن کا اسٹے مانگا گیا لیکن استدعا مسترد کر دی گئی، ہر دائر درخواست کے ساتھ اسٹے کی استدعا ہے، قانون سب کیلئے یکساں ہے۔
وکیل امجد پرویز نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال کے مطابق سیشن عدالت ٹرائل جاری رکھ سکتی ہے، ابھی ٹرائل جاری ہے، فیصلہ جاری نہیں ہوا، ٹرائل جاری رکھنے سے نہیں روکا جا سکتا، فرد جرم عائد ہونے پر آج پہلی بار اعتراض سیشن عدالت میں اٹھایا، یہ ہائیکورٹ جائیں اور مطمئین کریں کہ فرد جرم غلط عائد کی گئی، چیئرمین پی ٹی آئی نے تو خود الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثہ جات درج کروائے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ صرف 342 کا بیان ریکارڈ کروانا، ان کا تو اپنا بیان ہے جو الیکشن کمیشن میں جمع ہے، ہر ٹرائل میں ملزم کی حاضری ضروری ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کتنی استثنیٰ کی درخواستیں دائر ہوئیں؟، سب کے سامنے ہیں، انہوں نے جواب دینا ہے جو ان کے اپنے الفاظ میں عدالت لکھے گی، چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے وکلاء کے ہمراہ کھڑے ہو کر جواب دائر کرنا ہے۔
وکیل امجد پرویز نے مزید کہا کہ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کا کوئی جواز نہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی صرف تاخیری حربے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
جج ہمایوں دلاور کے ریمارکس
دوران سماعت جج ہمایوں دلاور نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آج چیئرمین پی ٹی آئی کا 342 کا بیان قلمبند کرنے کیلئے سماعت مقرر تھی، آج تیسرا دن 342 کا بیان ریکارڈ کروانے کیلئے تعین تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء نے 342 کے بیان کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی، چیئرمین پی ٹی آئی اپنے وکیل خواجہ حارث کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے۔
معزز جج نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے بیان قلمبند کرنے کیلئے کچھ وقت مانگنے کی درخواست دائر کی گئی، چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق آج کل 180 کیسز میں پیش ہو رہے ہیں، ان کے مطابق عاشورہ کی چھٹیوں کے باعث 342 کا بیان نہیں بنایا جا سکا، چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے وکلاء کو 342 کے بیان قلمبند کروانے کیلئے کافی وقت دیا گیا۔
جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس میں مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے 3 مئی کے بعد سے سماعتوں کے فیصلے عدالت میں پڑھے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کے مطابق سیشن عدالت تیزی سے ٹرائل چلا رہی، وکلاء کے مطابق تیزی سے ٹرائل چلنے پر غیر جانبداری سے ٹرائل نہیں چل رہا، چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی سیشن عدالت پر اعتماد کا اظہار نہیں کیا، عدالت نے ایسی درخواستیں پہلے بھی مسترد کی ہیں۔
معزز جج نے کہا کہ ایسی درخواستوں کا مقصد ٹرائل کو تاخیر کا شکار بنانا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے سینئر وکیل خواجہ حارث کا رویہ عدالت کے سامنے عیاں ہے، چیئرمین پی ٹی آئی اور وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو صرف مایوس کیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کا مقصد تاخیری حربے استعمال کرنا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے وکلاء عدالت کو مزید مایوس کرنا چاہتے تھے، عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو 342 کا بیان قلمبند کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت کل 9 بجے تک ملتوی کر دی۔