نو مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سوالات اٹھیں گے جن کے جواب دینا شاید ممکن نہ ہو، سپریم کورٹ

کیا نو مئی کو جو ہوا جرم کی نیت سے ہی ہوا؟ کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی؟ ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہوئی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا؟ ملٹری کورٹس کیس میں بینچ کے ریمارکس

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت میں بینچ نے ریمارکس دیئے کہ نو مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سوالات اٹھیں گے جن کے جواب دینا شاید ممکن نہ ہو۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہورہی ہے جہاں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بنچ سماعت کر رہا ہے، آج کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ تین نکات پر اپنے دلائل دوں گا، 9 مئی ،21 جولائی فیصلہ اور اپیل پر دلائل دوں گا، 9 مئی کو مجموعی طور پر ملک بھر میں 39 واقعات ہوئے، پنجاب میں 23، کے پی 8، سندھ 7 اور بلوچستان میں ایک واقعہ ہوا، جی ایچ کیو لاہور، ائیر بیس میانوالی، آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملے ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی تمام واقعات اتفاقیہ نہیں تھے، 5 بجکر 40 منٹ شام سے رات 9 بجے تک پوری کور غیر فعال ہوچکی تھی، 9 مئی کو اگر لاہور پر بیرون جارحیت ہوتی تو جواب نہیں دیا جاسکتا تھا، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہو گئی تھی، ایک وزیراعظم 2007ء میں قتل کر دی گئی تھیں، رد عمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو نو مئی کو ہوا، جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی، ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان تین ساڑھے تین سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی نو مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا گیا، 9 مئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے ہمیں خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں‘، جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ’یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے، جناح ہائوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، تین اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، بغیر پنشن ریٹائر ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک برگیڈیئر، لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں، 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟‘، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی نو مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی‘، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کےساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی‘، جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ ’اٹارنی جنرل صاحب آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے نو مئی واقعہ کی میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی، میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا‘۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے مزید کہا کہ ’نو مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے، نو مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کیلئے دینا ممکن نہ ہو، کیا بغیر پنشن ریٹائر ہونے والا جنرل کور کمانڈر لاہور تھا؟‘، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’جی کور کمانڈر لاہور کو ہی بغیر پنشن ریٹائر کیا گیا‘، جسٹس نعیم افغان نے پوچھا کہ ’کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے ہیں؟‘ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا‘، جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ ’یہی تو بات ہے کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے، اس لیے بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں‘۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’کیا جناح ہاوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا‘، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’میں اس کو چیک کر کے بتاوں گا کیسے ہوا تھا‘، جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ’کیا نو مئی کو جو ہوا جرم کی نیت سے ہی ہوا؟ کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی؟ ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہوئی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا؟ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا مگر کر گیا‘، اس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ’نو مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا‘۔
اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ’آئین میں ترمیم مشکل کام ہے لیکن 26 مرتبہ کر لیا گیا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس میں آسانی سے ہونے والی ترمیم بھی نہیں کی جاتی؟‘، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’فوجی عدالتوں سے سزائوں کیخلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں، اب تک 86 مجرمان اپیلیں کر چکے باقیوں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دیں گے، آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے، 20 منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کیلئے رکھے تھے‘، جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیا کہ ’مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں، میں ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں‘۔