عمرا ن خان پی ٹی آئی کے کسی فرد سے نہیں ملنا چاہتے تو حکومت کیا کرے؟، سینیٹر عرفان صدیقی

جیل طریقہ کار کے مطابق ملاقاتیوں کی فہرست عمران خان کو بھیجی جاتی ہے، یہ کوئی ایشو نہیں ایک نہیں تو دوسرے دن ملاقات ہو ہی جاتی ہے، رہنماء ن لیگ کی نجی ٹی وی سے گفتگو

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ عمرا ن خان پی ٹی آئی کے کسی فرد سے نہیں ملنا چاہتے تو حکومت کیا کرے؟، جیل طریقہ کار کے مطابق ملاقاتیوں کی فہرست عمران خان کو بھیجی جاتی ہے، یہ کوئی ایشو نہیں ایک نہیں تو دوسرے دن ملاقات ہو ہی جاتی ہے،نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رہنماءن لیگ نے کہا کہ 30 سال کی سزائیں کاٹنے والے لیڈروں کی تاریخ گواہ ہے کہ عمران خان سے جتنی ملاقاتیں ہو رہی ہیں، اتنی آج تک کسی کی نہیں ہوئیں۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان خود فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کس سے ملاقات کرینگے ۔انہوں نے کہا کہ آئی ایس پی آر نے دو شرائط بیان کی ہوئی ہیں ایک 9 مئی پر معافی مانگیں اور دوسرا سیاستدانوں سے مذاکرات کریں لیکن وہ کہتے ہیں ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔
اعظم سواتی نے میری بات کی تائید کر دی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے جتنے نمایاں رہنما ہیں وہ خود کو ہی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں اور دوسروں کو پی ٹی آئی نہیں مانتے۔

پی ٹی آئی بے ہنگم جماعت بن چکی ہے جو مختلف مداروں میں چکر کھا رہی ہیں۔بانی پی ٹی آئی عمران خان پہلے دن سے قائل ہیں چھت پر کھڑے ہو کر اعلان کر رہے ہیں میں نے کہا تھا کہ قائل ان کو کریں جن سے بات کرنا چاہتے ہیں۔امریکی وفد کی جیل میں عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف ایک قدآور سیاسی قائد ہیں جن کا سب احترام کرتے ہیں۔
ان کی شخصیت، تجربہ اور روابط قومی مسائل کے حل میں اہم ثابت ہوتے ہیں۔سیاست میں رنجشیں ہوتی ہیں لیکن سیاستدان جب ملتے ہیں تو مسائل سلجھنے کی راہ نکل آتی ہے اختر مینگل ان بالغ نظر سیاستدانوں میں شامل ہیں جن سے مکالمہ ہو سکتا ہے۔پہاڑوں پر چڑھے لوگ بندوق سے بات کریں گے۔ خون بہائیں گے تو جواب میں مذاکرات نہیں ہوں گے۔ایک اور سوال کے جواب میںسینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ صدر مملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیاسی مجبوری میں بات کر دی ہوگی لیکن حقیقت یہی ہے کہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے احتجاج کے بعد پیپلز پارٹی کی سیاسی ضرورت تھی کہ وہ یہ باتیں کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی آئینی اداروں کی حامی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی والا طرز عمل نہیں لہٰذا ایسا کوئی امکان نہیں کہ پیپلزپارٹی حکومت سے الگ ہونے کا کوئی فیصلہ کریگی۔ ان کا کہنا تھا میڈیا تحقیق کرے 8 جولائی 2024ء کو ایوان صدر میں اجلاس ہوا۔ ارسا کو صدر کے دفتر سے خط جاتا ہے جس پر وہ کام کا آغاز کرتے ہیں تمام عمل میں سندھ کے لوگ شامل تھے 14 مارچ 2025ءکو سندھ اسمبلی میں نہروں کے خلاف قرارداد منظور ہوئی۔ 8 جولائی سے 14 مارچ تک پیپلز پارٹی کیوں خاموش رہی؟ یہ معاملہ سی سی آئی میں جائے گا۔