ہم پر لوگ فیصلوں کی وجہ سے 50 فیصد اعتماد کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل

ملٹری کورٹس کے ٹرائل کا ریکارڈ تو ہم بھی نہیں دیکھ سکتے، شکایت کنندہ خود کیسے ٹرائل کر سکتا ہے؟ کیا تمام اداروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر عدالتیں ہی ختم ہوگئیں تو پھر کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل سے مکالمہ

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ ہم پر لوگ فیصلوں کی وجہ سے 50 فیصد اعتماد کرتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کےخلاف کیس کی سماعت جاری ہے جہاں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس حسن اظہر، جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شاہد بلال بینچ کا حصہ ہیں، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد علی بھی بینچ میں شامل ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ آج کی سماعت کے دوران اٹارنی جزل منصور اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ’ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پتا چلا کہ عدالت نے مجھے طلب کیا تھا‘، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’ملٹری کورٹس کے ٹرائل کا ریکارڈ تو ہم بھی نہیں دیکھ سکتے، یہ بتائیں حکومت اپیل کا حق دے رہی یا نہیں؟ شکایت کنندہ خود کیسے ٹرائل کر سکتا ہے؟ کیا تمام اداروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ ہم پر تو لوگ فیصلوں کی وجہ سے صرف 50 فیصد اعتماد کرتے ہیں اگر عدالتیں ہی ختم ہوگئیں تو پھر کیا ہوگا؟‘۔
اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ ’اگر کوئی جج چھٹی پر چلا جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے کہ ٹرائل لیٹ ہو رہا ہے لیکن فوجی عدالتوں میں کلاشنکوف رکھ کر تو فیصلہ کیا جاتا ہے، اُن کو کوئی کچھ کہہ سکتا ہے؟ آپ کیسے انصاف اور شفاف ٹرائل کی بات کر رہے ہیں؟ حکومت سویلینز کو اپیل کا حق دے گی تو کون سا مسئلہ ہوگا؟‘۔