اسلام آباد:( نیوز ڈیسک ) صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیکا ترمیمی بل 2025 پر دستخط کر دیئے۔ ذرائع کے مطابق ایوان صدر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ صدر مملکت آصف علی زداری نے پیکا ترمیمی بل 2025 پر دستخط کر دیئے ہیں۔
اعلامیہ کے مطابق صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد پیکا ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ترمیمی بل کو پہلے قومی اسمبلی سے منظور کرایا گیا تھا اور گزشتہ روز ایوان بالا نے بھی ترمیمی بل کی منظوری دے دی تھی جس کے بعد صدر مملکت کے دستخط کے لئے ایوان صدر بھیجا گیا تھا۔
پیکا ترمیمی بل کیا ہے؟
دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز (ترمیمی) بل کو پیکا کا نام دیا گیا ہے، جس میں فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دیے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
اس بِل کے ذریعے پیکا میں ایک نئی شق، سیکشن 26 (اے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سزا سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر (فیک نیوز) پھیلاتا ہے جو عوام اور معاشرے میں ڈر، گھبراہٹ یا خرابی کا باعث بنے اس شخص کو تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
اسی طرح پیکا کے سیکشن 37 میں موجودہ ’غیر قانونی آن لائن مواد‘ کی تعریف میں اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد شامل ہیں۔ غیر قانونی مواد میں فحش مواد، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی ، جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف ’الزام تراشی‘، بلیک میلنگ اور ہتک عزت شامل ہیں۔
مقدمہ کہاں چلے گا؟
پیکا ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کیا جائے گا، وفاقی حکومت تین سال کیلئے ٹربیونل ممبران تعینات کرے گی، سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل 90روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔
ٹربیونل میں کون کون شامل ہوگا؟
ٹربیونل چیئرپرسن سمیت دیگر 6 ممبران پر مشتمل ہوگا اور وفاقی حکومت 3 سال کے لیے چیئرپرسن اور 3 اراکین کا تقرر کرے گی جبکہ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی آئی اتھارٹی کے ممبران ہوں گے۔
اتھارٹی میں تمام فیصلے اکثریتی اراکین کی رضامندی سے کیے جائیں گے جبکہ چیئرپرسن کو کسی بھی غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا خصوصی اختیار ہوگا اور چیئرپرسن کے فیصلے کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں کے اندر ’توثیق‘ کرنا ہوگی۔
شکایت درج کرانے کا طریقہ کار
سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔
کردار کشی، جھوٹی خبر پھیلانے اور حذف شدہ مواد شیئر کرنے پر سزا
عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف ’الزام تراشی‘، بلیک میلنگ، جھوٹی خبروں کی تشہیر کے علاوہ قومی اسمبلی سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں حذف مواد سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر کارروائی ہوگی، سپیکرز و چیئرمین سینیٹ کی طرف سے حذف مواد نشر کرنے پر تین سال قید اور بیس لاکھ روپے جرمانہ کیا جاسکے گا۔
فیصلہ کہاں چیلنج ہوسکتا ہے؟
پیکاترمیمی بل کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔