یہ میرا ذاتی نظریہ ہے کہ واقعی تنخواہ دار طبقے پر ایک غیر متناسب حد تک زیادہ بوجھ پڑتا ہے، حکومت تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس جمع کرانے کے عمل کو آسان بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، وزیر خزانہ کی پاکستان بزنس کونسل کے وفد سے ملاقات میں گفتگو
اسلا م آباد ( نیوز ڈیسک ) وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس ریٹرن کے عمل کو آسان بنایا جائے گا، یہ میرا ذاتی نظریہ ہے کہ واقعی تنخواہ دار طبقے پر ایک غیر متناسب حد تک زیادہ بوجھ پڑتا ہے، حکومت تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس جمع کرانے کے عمل کو آسان بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، پاکستان بزنس کونسل کے وفد سے گفتگوکرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ نئے بجٹ پر اگلے ماہ مختلف چیمبرز آف کامرس سے مشاورت کی جائے گی۔
وزیر خزانہ نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کا اشارہ دیدیا۔محمد اورنگزیب نے تنخواہ دار طبقے پر غیر متناسب ٹیکس کے بوجھ کا اعتراف کیا اور موجودہ ٹیکس سلیبس پر نظر ثانی کا اشارہ کیا۔انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں مختلف ٹیکسوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے تاہم میں اس حوالے سے مزید بات نہیں کرسکتاہم پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کی زندگی کو آسان بنانا چاہتے ہیں۔
کاروباری چیمبرز کے ساتھ مشاورت فروری میں شروع کرنے کا منصوبہ ہے جس میں مارچ سے اپریل تک تفصیلی آراءمتوقع ہیں۔حکومت نے جنوری کے پہلے ہفتے میں ہی اپنے بجٹ کا عمل بھی شروع کر دیا ہے اس سے ہمیں تفصیلی بات چیت کرنے کا وقت ملے گا۔ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں۔ ہم نے وعدے کئے ہیں اس لئے کچھ چیزوں کو مرحلہ وار یا مرحلہ وار کرنا پڑے گا۔ان کا کہنا تھا کہ تمام اقتصادی اشاریے درست سمت آگے بڑھ رہے ہیں۔
آئندہ مالی سال کا بجٹ جون 2025 کے پہلے ہفتے میں پیش کیا جائے گا۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی سے کاروباری اعتماد میں بہتری آئے گی۔اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو یہ ملکی معیشت کیلئے ایک اہم ہوگا اور خود مختاری کو دوبارہ بی درجہ بندی کی جانب لے جائے گا۔قبل ازیں وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انٹرسٹ ریٹ کی شرح کم ہوکر 11 فیصد رہ گئی ہے۔
سود کی شرحوں میں کمی سے کاروباری اعتماد میں بہتری آئے گی۔ ٹیکس پالیسی یونٹ کو ایف بی آر سے نکال کر وزارت خزانہ میں شامل کررہے ہیں جس کا مقصد ٹیکس پالیسی کو ریونیو کلیکشن کے دباو سے محفوظ رکھنا ہے۔ملک کے موجودہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب تشویشناک ہے اور 8 سے 9 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ملکی معیشت کے لیے ناقابل قبول ہے،اس تناسب کو اگلے 3 سال میں 13.5 فیصد تک بڑھانے کا ارادہ ہے۔