اگر پارلیمنٹ چیف جسٹس کا تقرر کرے گی تو مداخلت تصور ہوگی، آئین کہتا کہ ریاست کے تینوں ستون آزاد ہیں، امید ہے کہ سپریم کورٹ کا موجودہ چیف جسٹس سب کو ساتھ لے کر چلے گا، مرکزی رہنماء پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر کا ردعمل
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماء بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کوچاہیئے تھا کہ سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کیلئے نامزد کرتی،اگر پارلیمنٹ چیف جسٹس کا تقرر کرے گی تو مداخلت تصور ہوگی، آئین کہتا کہ ریاست کے تینوں ستون آزاد ہیں۔ انہوں نے نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے تینوں سینئر ترین ججز بہترین ججز ہیں، حکمت کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں، ان کے فیصلوں کو دنیا بھر میں تحسین سے دیکھا جاتا تھا۔
پارلیمانی کمیٹی کوچاہیئے تھا کہ سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کیلئے نامزد کرتے۔ اگر سینئر ترین میں کوئی خرانی ہوتی تو پھر دوسرے یا تیسرے نمبر پر جاتے۔اگر پارلیمنٹ چیف جسٹس کا تقرر کرے گی تو پھر جوڈیشری میں مداخلت تصور ہوگی، آئین کہتا کہ ریاست کے تینوں ستون آزاد ہیں۔
جسٹس یحیٰ آفریدی کی کارکردگی بہترین رہی ہے، بہت سارے کیسز میں اپنی الگ رائے بھی دی ہیں، امید یہی ہے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس سب کو ساتھ لے کر چلے۔
منصور علی شاہ چیف جسٹس بنتے تو ان کی کوشش بھی ہونی تھی کہ وہ متحد سپریم کورٹ کو سامنے لے کر آتے۔ قاضی فائز عیسیٰ جب چیف جسٹس بنے تو امید تھی کہ آئین کی بحالی اور لوگوں کے حقوق کیلئے ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔ لیکن پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کا جب فیصلہ آیا توان کی ڈاؤن فال شروع ہوئی۔ جس سے نظر آگیا کہ وہ پی ٹی آئی کے خلاف ہیں، میرا خیال ہے کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تھا وہی چیزیں ان کے ذہن میں ہوں گی۔
اس موقع پر وفاقی مشیر سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں سینئر کون ہوسکتا ہے اس کی وضاحت کرنے والے بھی منصور علی شاہ ہیں، کیونکہ جس طرح سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج چیف جسٹس بنتا تھا، اسی طرز پر ہائیکورٹس کے بھی سینئر ترین جج چیف جسٹس بنتے تھے،پچھلے سال جب جوڈیشل کمیشن میں منصور علی شاہ شامل ہوئے تو جوڈیشل کمیشن نے فیصلہ کیا کہ سینئر ترین کا مطلب ہرگز نہیں سروس میں سینئر ہو، بلکہ تین سینئر میں جو بہترہوگا وہ سینئر کیلائے گا، اسی بنیاد پر سندھ ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر ہوا۔
بلکہ ایک جج چوتھے نمبرپر تھے لیکن وہ بھی سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔یہی طریقہ کار آئینی ترمیم میں رکھا گیا ہے۔ اسی کے پیش نظر سینئر ترین جج یحیٰ آفریدی کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ تینوں ججز ہمارے نزدیک قابل اور بہترین تھے، لیکن سپریم کورٹ کی گروپنگ میں جسٹس یحیٰ آفریدی واحد جج ہیں جو اس گروپنگ کا شکار نہیں ہوئے، ان کے چیف جسٹس بننے میں بھی یہی بنیادی وجہ تھی اور وہ سپریم کورٹ کو بہتر انداز میں چلا سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ بڑی جرات بہادری کے ساتھ دلیرانہ فیصلے کرتے رہے ہیں۔ بعض کیسز میں ن لیگ کے خلاف بھی فیصلے دیئے، ہم بھی ان پر اعتراض کرتے رہے۔ اب کچھ فیصلوں سے پی ٹی آئی کو بڑی ناراضگی ہوئی۔