ڈیمز فنڈ کیس: پاکستان میں بہت سے کام بغیر آئین و قانون کے ہوجاتے ہیں، چیف جسٹس

اسلام آباد: ( نیوز ڈیسک ) چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ڈیمز فنڈ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں بہت سے کام بغیر آئین اور قانون کے ہی ہو جاتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے ڈیمز فنڈ پرائیوٹ بینکس میں مارک اپ کیلئے رکھنے سے متعلق وفاقی حکومت اور واپڈا سے معاونت طلب کر لی۔

دوران سماعت ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ ڈیمز فنڈز کی رقم اپنے پاس نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ کے حکمنامے کے تحت وزیراعظم، چیف جسٹس ڈیمز فنڈز اکاؤنٹ کھولا گیا، رجسٹرار سپریم کورٹ اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کرتا تھا، تحقیقات سے علم ہوا کہ ڈیمز فنڈز اور مارک اپ میں بے قاعدگی نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اکاؤنٹ کا عنوان نامناسب ہے، میری ہمیشہ پریکٹس رہی کہ آئین و قانون کے بجائے عدالتی فیصلوں کو فوقیت نہیں دینی چاہیے، جس پر سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ فنڈز کے اکاؤنٹ کا نام تبدیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔

واپڈا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 2018 سے لے کر اب تک 19 عمل درآمد رپورٹس جمع کرائی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نظرثانی نہیں سن رہے، صرف یہ دیکھ رہے ہیں سپریم کورٹ فنڈز رکھ سکتی ہے یا نہیں۔

سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈیمز فنڈز کو حکومت کے استعمال کے بجائے ڈیمز کیلئے ہی استعمال ہونا چاہیے، جب ڈیمز فنڈز کیس چل رہا تھا اس وقت آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار کا پھیلاؤ پورے ملک تک تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی باتوں کے بجائے آئین کے تحت معاونت کریں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فنڈز پبلک اکاؤنٹ سے مارک اپ کیلئے پرائیویٹ بنکس میں رکھے جا سکتے ہیں، ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے جواب دیا کہ ڈیمز فنڈز پبلک اکاؤنٹ میں گئے تو مارک اپ نہیں لیا جا سکتا، 37 سالہ ملازمت میں ایسا کبھی نہیں دیکھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب سپریم کورٹ میں عجیب و غریب چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں اس وقت کوئی اعتراض نہیں کرتا، ہم ڈیمز بنانے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکمنامے کی طرف نہیں جائیں گے۔

سٹیٹ بینک کے لیگل ایڈوائزر نے عدالت کو بتایا کہ ڈیمز فنڈ میں اس وقت ٹوٹل 23 ارب روپے سے زائد رقم موجود ہے، فنڈ میں آنے والی رقم 11 ارب جبکہ اس پر مارک اپ 12 ارب روپے سے زائد ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سٹیٹ حکام سے استفسار کیا کہ مارک اپ کون ادا کرتا ہے؟ جس پر ایڈیشنل آڈیٹر جنرل غفران میمن نے جواب دیا کہ مارک اپ ٹی بلز کے ذریعے حکومت ادا کرتی ہے، ڈیمز فنڈ کی مکمل تحقیقات کی ہیں، کوئی خردبرد نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ حکومت اپنے آپ کو کیسے اور کیوں مارک اپ دے رہی ہے، ایڈیشل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مارک اپ اس پیسے پر دیا جاتا ہے جو حکومت استعمال کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت پر مارک اپ کا بوجھ ڈال کر خوش ہو رہے کہ 11 ارب روپے بڑھ کر 23 ارب ہوگئے، یہ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے، کیا سپریم کورٹ ڈیمز فنڈ میں موجود رقم رکھ سکتی ہے۔

ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے کہا کہ ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کے پبلک اکاؤنٹ کے ذریعے واپڈا کو جانی چاہیے۔

جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ حکومت کی مالی حالت ٹھیک نہیں، اگر رقم واپڈا کو دی ہی نہ تو کیا ہوگا؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا سپریم کورٹ کس دائرہ اختیار میں ڈیمز تعمیر کی پیشرفت رپورٹ مانگتی رہی؟ واپڈا کے وکیل سعد رسول نے جواب دیا کہ عدالت کا مقصد صرف ڈیمز کی تعمیر کے حکم پر عملدرآمد یقینی بنانا تھا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئین میں عملدرآمد بنچ کی تشکیل کا کوئی ذکر ہے جس پر واپڈا وکیل نے کہا کہ آئین میں عملدرآمد بنچ کا ذکر نہیں لیکن کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے کام بغیر آئین اور قانون کے ہی ہوجاتے ہیں، سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ عملدرآمد بنچ کا تصور کراچی بدامنی کیس سے شروع ہوا تھا، چیف جسٹس نے کہا میں نے حلف آئین کی بالادستی اور عملدرآمد کا اٹھایا تھا عدالتی فیصلوں کا نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ڈیمز فنڈز کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔