آل پاکستان وکلاء کنونشن؛ جوڈیشل پیکج و آئینی عدالت کیخلاف قرارداد منظور

سُپریم کورٹ کے پاس تمام اختیارات موجود ہیں، کوئی آئینی عدالت نہیں بنے گی، وکلاء کی لاشیں بھی گریں تو بھی ہم یہ ترمیم نہیں لانے دیں گے؛ اسلام آباد میں شرکاء کا کنونشن سے خطاب

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ آل پاکستان وکلاء کنونشن میں جوڈیشل پیکج اور آئینی عدالت کے قیام کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں ’عدلیہ، آئین اور پاکستان بچاؤ‘ کے عنوان سے وکلاء کنونشن ہوا، جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کونسل کی جانب سے قرارداد منظور کی گئی۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حامد خان نے کہا کہ جس کسی پارلیمنٹ ممبر نے اس پیکج کا ساتھ دیا وہ بھی آئین کا غدار کہلائے گا، اس پیکج کا ساتھ دینے والوں پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مقدمات چلائے جانے چائیں، قاضی جو قاضی کہلانے کے قابل نہیں، شرمندگی کی بات ہے میں نے اس کی خاطر عمران خان سے جنگ لڑی لیکن مجھے نہیں پتا تھا یہ قاضی ملک کی عدلیہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا، مجھے معلوم نہیں تھا کس طرح یہ فلور کراسنگ کو سپورٹ کرے گا، کیا ضرورت تھی اس کو جب 15 دن ریٹائرمنٹ میں رہ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کنونشن کے منتظمین سمیت یہاں موجود تمام بار کونسلز کے صدور اور نمائندوں کا شکر گزار ہوں، میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار کو اس ملک گیر کنونشن کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہوں، یہ آج تک کیے گئے تین بڑے کنونشنز میں سب سے اہم کنونشن ہے، ہماری ماضی کی تحریکوں سے ہم نے عدلیہ کو آزاد کروایا، عدلیہ اور آئین سمیت ملک کو بچانے کے لیے یہ تیسری تحریک ہے، لوگ مجھے کہتے ہیں وکلاء منقسم ہیں لیکن میں کہتا ہوں وکلاء آئین کی بالادستی کے لیے متحد ہیں اور ہر تحریک میں ہماری ایک ہی پارٹی ہوتی ہے وہ کالا کوٹ پارٹی ہے۔
حامد خان کہتے ہیں کہ کہ ہم کسی فرد کے لیے نہیں ادارے کے لیے لڑتے ہیں، ایک متبادل عدالت بنانے کی بات ہو رہی ہے، اس ملک میں 77 سال سے پولیٹیکل انجنیئرنگ ہو رہی ہے جبکہ ملک کی تعمیر میں کسی جرنیل کا کردار نہیں، بانی پاکستان قائد اعظم اور ان کے رفقا وکیل تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ آج ہم میں وہ اتحاد موجود ہے جس کی بناء پر ہم آئینی ترمیم نہیں ہونے دیں گے، اگر ملک کی 10، 15 سال سیاست کو دیکھیں تو 2000ء کے اوائل میں یہ ملک جن حالات سے گزرا وہ سب کے سامنے ہیں، مشرف کے خلاف غداری کا کیس چلا، ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بھی سب سمجھ لیا ملک کے نظام کو اندر سے قابو کرنا ہے، جوڈیشری کو مجبور کیا جائے گا کہ جو بھی فیصلے ہوں گے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق ہوں گے، یہ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔