سپریم کورٹ کے متوازی عدالت بنانے سے بڑا حملہ نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ خود ایک فیڈرل آئینی کورٹ بھی ہے، پارلیمان سپریم کورٹ کے متوازی عدالت کیلئے قانون سازی نہیں کرسکتی۔ رہنماء پی ٹی آئی سینیٹر حامد خان
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پی ٹی آئی رہنماء سینیٹر حامد خان نے کہا ہے کہ حکومت کے آئینی ترمیم کے مسودے ثابت ہوگیا کہ اصل حملہ عدلیہ کے نظام پر ہونا ہے، سپریم کورٹ کے متوازی عدالت بنانے سے بڑا حملہ نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ خود ایک فیڈرل آئینی کورٹ بھی ہے۔ انہوں نے نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے آئینی ترمیم کے مسودے سے چیز ثابت ہوگئی کہ اصل حملہ عدلیہ کے نظام پر ہونا ہے، ان لوگوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ سپریم کورٹ کو تباہ وبرباد کردینا ہے، ہائیکورٹس کو بےاثر کردینا ہے پھر ہم جو جی چاہے گا من مانی کریں گے۔
لیکن ہمیں کوئی روکنے والا نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ کے متوازی عدالت بنانا اس سے بڑا حملہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ سپریم کورٹ خود ایک فیڈرل آئینی کورٹ ہے۔
آپ کہاں سے نئی وفاقی آئینی عدالت لے آئیں گے۔ فیڈرل شریعہ کورٹ بھی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے۔ پارلیمان کو استحقاق نہیں کہ سپریم کورٹ کے متوازی عدالت کھڑی کرنے کیلئے قانون سدازی کرے۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء طارق فضل چوہدری نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیا موجودہ عدالتی سسٹم جس کے تحت 15 ، 15 سال فیصلے نہیں ہوتے وہ پسند ہے؟ کیا ایف آئی آرز اور پراسیکیوشن کا طریقہ کار پسند ہے؟ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک جج ایک فیصلہ دیتا ہے جب دوسرا جج 15 فیصلے کرتا ہے ایک فیصلہ کرنے والے جج کا احتساب ہونا چاہیے یا نہیں؟ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ قاضی فائز عیسیٰ سے کیا مسئلہ ہے؟ ادارے اہم ہوتے ہیں افراد اہم نہیں ہوتے، قاضی فائزعیسیٰ نے خود کہہ دیا ہے کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لیں گے، آئینی عدالت تو ابھی تک بنی نہیں تو پھر وہ کیسے لگ جائیں گے۔
سپیرم کورٹ میں 61 ہزار کیسز زیرالتواء پڑے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں سپریم کورٹ میں جو کیسز سنے گئے ان میں ٹیکر بنانے والے کیسز اور عام آدمی کے کیسز کی تعداد بتا دیں۔