شیرافضل مروت کو کسی بھی مقدمے میں بغیر اجازت گرفتار نہ کرنے کا حکم

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کردیا

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیرافضل مروت کو کسی بھی مقدمے میں بغیر اجازت گرفتار نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کی جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے شیر افضل مروت کو مزید کسی کیس میں بغیر اجازت گرفتار کرنے سے روک دیا، عدالت نے سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب، ایف آئی اے کو نوٹسز جاری کردیئے، فریقین کو شیر افضل مروت کی درخواست پر پیراوائز کمنٹس جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیر افضل مروت کے خلاف مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کرلیں، عدالتی حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار وکیل کے مطابق شیر افضل مروت کو کسی خفیہ مقدمے میں گرفتاری کا خدشہ ہے، شیر افضل مروت کو عدالت کی اجازت کے بغیر کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے گرفتار اراکین قومی اسمبلی شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی، نسیم شاہ، احمد چٹھہ و دیگر کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ، دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل عدالت میں پیش ہوئے جب کہ ملزمان کی جانب سے اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین عادل عزیز قاضی، راجا حلیم عباسی ایڈووکیٹ اور وکیل شہباز کھوسہ نے دلائل دیے، اس موقع پر اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران، بیرسٹر تیمور ملک بھی عدالت میں موجود تھے . دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل ایف آئی آر پڑھ کر سنا رہے تھے جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے دلچسپ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ایف آئی آر کا لکھاری بھی دلچسپ ہے، یہ اسلام آباد پولیس ہے یا رضیہ جو غنڈوں میں پھنس گئی ہے؟ کریڈٹ دینا ہوگا کہ بڑے عرصے بعد اچھی کامیڈی دیکھنے کو ملی ہے ،جس نے بھی یہ ایف آئی آر لکھی اس نے اچھی کامیڈی لکھی ہے، پولیس ایف آئی آر کسی ناول کی کہانی ہے جبکہ ریمانڈ آڈر کی صرف کاپیاں کی گئی ہے باقی پورا آڈرحرف بہ حرف ایک جیسا ہے ، ریاست کے نمائندے جواب دیں کہ ایسا کون سال جرم تھا جس کے لیے آٹھ ‘آٹھ دن کا جسمانی ریمانڈ دیا گیایہ ایسا عمل ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی . اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ‘شعیب شاہین نے پستول رکھ لیا‘فلاں نے ڈانڈامارا، بیرسٹرگوہرنے اسلحہ چھین لیایہ سب کیاہے؟کیامیں اورآپ انہیں نہیں جانتے؟ یہ شعیب شاہین کی تضحیک ہے،کیاہم انہیں نہیں جانتے؟ شعیب شاہین سے اگرڈنڈا برآمد کرنا تھا تو وہ موقع پر ہوگیا ہوگا؟‘، پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ’ شیرافضل مروت سے پستول برآمدہواہے ‘، جس پر چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ’ پستول بھی برآمدہوگیااب آگے چلیں ‘، پراسیکیوٹرجنرل اسلام آباد نے بتایا کہ ’شعیب شاہین سے ڈنڈابرآمدہوگیا ہے ‘، پراسیکیوٹرجنرل کے بیان پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 4دن ہو گئے، آپ نے جو کرنا تھا وہ کر لیا اب بتائیں 8دن کا ریمانڈ کیوں دیا گیا؟ 2دن کا ریمانڈ کافی تھا،ریمانڈ میں کسٹڈی دی جاتی ہے لیکن حتمی طورپرکسٹڈی کورٹ کی ہی ہوتی ہے، مقدمہ میں مضحکہ خیزقسم کےالزامات لگائے گئے اور 8دن کاریمانڈبھی دیدیا گیا. جسٹس عامر فاروق نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ’ ملک میں امن و امان کی صورتحال کس طرف جارہی ہے؟ آپ نے پارلیمنٹ میں گھس کر قومی اسمبلی کے اراکین کواٹھایا‘یہ کہاں کا قانون؟اس پربھی ایک پٹیشن آئی ہوئی ہے جسے اگلے ہفتے سنوں گا، آپ نے پارلیمنٹ میں گھس کرجس طرح کارروائی کی اس کے بعدباقی کیارہ گیا ہے؟ آئین میں دی گئی آزدیاںکہاں گئیں‘قانون کہاں گیا ؟‘، بعد ازاں عدالت نے تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ اور راہنماﺅں کے جسمانی ریمانڈکافیصلہ کالعدم قراردینے کی درخواستوں پرفیصلہ محفوظ کرلیا اور سماعت ملتوی کردی گئی.