ہم نے سیاست کو گالی بنا دیا، آج اپوزیشن والے جیلوں میں ہے کل ہم ہوں گے

ہمیں دیکھ کر کون سیاست میں آئے گا، تحریک انصاف والے آئیں بیٹھیں بات کریں، اپوزیشن ارکان اسمبلی سے استعفے نہ دیں، اختر مینگل کے استعفے سے مایوسی ہوئی۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم نے سیاست کو گالی بنا دیا، آج اپوزیشن والے جیلوں میں ہے کل ہم ہوں گے، ہمیں دیکھ کر کون سیاست میں آئے گا،تحریک انصاف والے آئیں بیٹھیں بات کریں، اپوزیشن ارکان اسمبلی سے استعفے نہ دیں، اخترمینگل کے استعفے سے مایوسی ہوئی۔
بلاول بھٹو نے آج قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں گیلریوں میں بیٹھے طلبہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج پارلیمنٹ میں ملک کا مستقبل موجود ہے۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ وہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ نوجوان ملک کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اس ایوان کی کارروائی دیکھنے کے بعد ان میں سے کوئی بھی سیاست دان بننے کی خواہش نہیں رکھے گا۔
ایوان کا رکن ہونا کسی بھی جمہوری ملک میں وقار اور عزت کی بات ہے۔ سیاست ایک لعنت بن چکی ہے لیکن یہ وہی سیاست ہے جو نوجوانوں کو روزگار، لوگوں کو معاشی انصاف اور ملک کو آگے لے جاتی ہے۔ ملک اس وقت متعدد بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے لیکن جب آج کے بچے بڑے ہوں گے تو یہ خطے کی قیادت کریں گے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ایوان ملک و قوم کے لئے کام کرے۔
چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ آئین کی بالادستی کے بغیر کوئی ادارہ نہیں چل سکتا۔ ایوان کے نمائندوں کو ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھنا چاہیے۔ اگر حکومت مسلسل آگ بجھانے میں مصروف رہے اور اپوزیشن بدستور لعنت ملامت کرتی رہے، شور مچاتی رہے تو وہ حکومت کو جوابدہ بنانے کا اپنا فرض ادا نہیں کر سکتے۔ اگر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت کی اقتصادی یا سیکورٹی پالیسیوں میں خامیاں ہیں، تو انہیں حل بھی تجویز کرنا چاہیے۔
اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکامی کا مطلب ہے کہ اپوزیشن اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے گی۔ اپوزیشن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے قیدی رہنماؤں کا معاملہ اٹھائے، لیکن وہ جن لوگوں پر حکومت کرتے ہیں، ان میں زیادہ تر لوگ بے روزگاری، مہنگائی، تعلیم، صحت اور دہشت گردی کے مسائل کا شکار ہیں۔ چیئرمین بلاول نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اگر وزیراعلیٰ میڈیا اور اپوزیشن پر لعنت بھیجتے ہیں اور اپنی ہی حکومت کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ججوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کرنے کے لیے استعمال کرے تو اس سے صوبے کے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے۔
دوسری طرف، اگر حکومت کی بنیادی توجہ یہ ہے کہ آئندہ کس کو جیل میں ڈالنا ہے، تو اس سے انہیں خوشی تو ہو سکتی ہے لیکن کل ہم سب اسی چکر میں پھنس جائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے یاد دلایا کہ عمران خان کے وزیراعظم کے دور میں پیپلز پارٹی نے ان سے کوئی ذاتی رنجش نہیں رکھی۔ ان کی فکر صرف آئین اور جمہوریت کی حفاظت تھی، جس کے لیے ان کے خاندان اور پارٹی نے قربانیاں دی تھیں، اور عوام کے مسائل حل کئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط کی یہی وجہ تھی۔ اس سے قبل الیکشن کمشنر کی تقرری حکومت کرتی تھی لیکن ان کی ترامیم سے اپوزیشن لیڈر کو اس عمل میں کردار ادا کرنے کی اجازت مل گئی جیسا کہ عبوری حکومت کی تقرری کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ یہ مفاہمت اس احساس سے پیدا ہوئی کہ دونوں فریقوں کو ملک کی خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
چیئرمین بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے عوام کو معاشی انصاف کے حصول کے لیے الیکشن لڑا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ضرورت پڑی حکومت پر تنقید بھی کی۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ اہم مسائل پر حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جبکہ حکومت کا ہدف مہنگائی کو ایک سال میں 12 فیصد تک کم کرنا تھا، لیکن یہ شرح پہلے ہی کم ہو کر 9.6 فیصد پر آ گئی ہے اور ابھی سال ختم ہونا باقی ہے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ایوان کو مہنگائی میں کمی کی تعریف کرنی چاہیے، اور اب سب کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 2008 سے 2013 تک حکومت نے اتفاق رائے سے کام کیا، اسی اپوزیشن کے ساتھ مل کرجنہوں نے ان کے والد کو ایک دہائی سے زائد عرصے تک جیل میں رکھا۔ انہوں نے ایک اتفاق رائے پر مبنی دستاویز تیار کی جس نے تمام آئینی اداروں کو مضبوط کیا۔
اس اتفاق رائے کے خلاف ایک لابی موجود ہے، جو اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ جمہوریت مخالف قوتوں کے لیے مزید جگہ پیدا کی جا سکے۔ ایسی ہی ایک کوشش افتخار چوہدری کی قیادت میں اختیار کی گئی اور انٹیلی جنس افسران نے ایک سیاسی جماعت کی پشت پناہی کرتے ہوئے، سیاسی نظام کو ایک ایسے موڑ پر دھکیل دیا جہاں بنیادی تعاون بھی ممکن نہیں رہا۔
چیئرمین بلاول نے سپیکر پر زور دیا کہ وہ ایوان کی فعالیت کو بحال کریں کیونکہ فعال ملک کے لیے فعال پارلیمنٹ ضروری ہے۔ انہوں نے ایک سینئر سیاستدان کے استعفیٰ پر مایوسی کا اظہار کیا، بلوچستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے اختر مینگل کے مستعفی ہونے کے فیصلے پرکہا کہ انہیں اس فیصلے پر انتہائی افسوس ہے۔ انہوں نے ایوان کو یاد دلایا کہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران انہوں نے اسمبلیوں کے بائیکاٹ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
چیئرمین بلاول نے سپیکر کو تجویز دی کہ وہ ایوان کی فعالیت کو بحال کرنے میں مدد کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دیں۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری صرف قانون سازی نہیں بلکہ سازگار ماحول پیدا کرنا بھی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی توجہ عوام کی خدمت اور ان کے حقوق کے تحفظ کی طرف مبذول ہونی چاہیے۔