بجلی کے بلوں میں کپیسٹی پیمنٹ سے بچنا ہے تو لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا ہوگی، وزیر توانائی کا عوام کو دو ٹوک جواب
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) وفاقی وزیرتوانائی اویس لغاری نے عوام کو دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئی پی پی پیز کے معاہدے نہیں کھول سکتے، بجلی کے بلوں میں کپیسٹی پیمنٹ سے بچنا ہے تو لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا ہوگی۔ منگل کے روز ۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں، 2 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برداشت کرلیں تو 50 ارب کا فائدہ ہوگا، کوئی شک نہیں کہ خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی دے رہے ہیں، ڈالر کی وجہ سے کیپسٹی پیمنٹ بڑھ کر 18 روپے ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی 30 فیصد انرجی ری نیو ایبل ہے، آپ کی انسٹال کپیسٹی 39 ہزار ہے، آپ نے سنا ہوگا کہ ہم نے اتنی صلاحیت کیوں بڑھائی ہوئی ہے، آپ یہ صلاحیت اتنی ہی ہے جتنی آپ کو ضرورت ہے، کپیسٹی چارجز 35 ہزار میگا واٹ کی دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہر سال جب 40 ڈگری سے اوپر درجہ حرارت جاتا ہے تو بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 300 سے 400 میگا واٹ کی کمی آتی ہے، ہر سال ہر پلانٹ کو کچھ دنوں کے بند بھی کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد آپ کے 34 ہزار میگا واٹ بچتے ہیں۔
وزیر توانائی نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ طلب کے مطابق منصوبہ بندی کرنی ہوتی ہے، اس وقت آپ کے پاس 29 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔اویس لغاری نے کہا کہ وہ بجلی ہر وقت استعمال کے لیے ہوتی ہے وہ صرف 7 ہزار میگا واٹ ہے، سب سے زیادہ طلب 24 ہزار میگا واٹ ہے، ایک ہزار 845 میگا واٹ صرف اس لیے سسٹم میں پڑا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کو 85 گھنٹے بجلی فراہم کی جائے، اس کے علاوہ اس ایک ہزار 845 میگا واٹ کی کوئی طلب ہی نہیں ہے، اس کے لیے ہمارا سسٹم 50 ارب روپے سالانہ ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ بجلی ہم سسٹم میں نہ رکھیں تو ہمیں پورے سال کے اندر 85 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرنی پڑے گی، یعنی اگر 40 دن 2،2 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ برداشت کرلیں تو پوری قوم 50 ارب روپے بچا سکتی ہے، یہ وہ قیمت جو وہ علاقے ادا کر رہے ہیں جہاں لائن لاسز نہیں ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ 3 ہزار 831 میگا واٹ سسٹم میں اس لیے رکھا ہوا ہے تا کہ آپ 874 گھنٹے لوڈشیڈنگ سے بچ سکیں، سال میں 8 ہزار 760 گھنٹے ہوتے ہیں، ان میں سے اگر آپ 10 فیصد بجلی برداشت کرلیں تو 100 ارب کی کپیسٹی پیمنٹ نہیں دینی پڑے گی، کپیسٹی پیمنٹ لوڈشیڈنگ سے بچنے کی قیمت ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ ہم کیوں زیادہ کپیسٹی پیمنٹ کر رہے ہیں، کیونکہ ہماری بجلی مہنگی ہے، ہم ریجن کے اندر سب سے مہنگی بجلی فراہم کر رہے ہیں، اس میں شک نہیں، جب تک اس کا اعتراف نہیں کریں گے، اس کو حل بھی نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ 874 گھنٹے لوڈشیڈنگ کرکے 100 ارب کا خرچہ کم کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمارے سسٹم میں بہت زیادہ فرق ہے، موسم سرما میں 7 ہزار مگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں اور گرمیوں میں 24 ہزار میگا واٹ استعمال کرتے ہیں صرف 80 گھنٹے کے لیے، باقی کپیسٹی ایسے ہی پڑی ہوتی ہے، 9 ہزار میگا واٹ بجلی صرف آپ کے پنکھے استعمال کرتے ہیں، 120 میگا واٹ اوسطا فی پھنکا استعمال کرتا ہے جو اب 30،30 واٹ کے پنکھے آگئے ہیں، زیادہ سے زیادہ کم بجلی استعمال کرنے والے پھنکھوں کا استعمال کرنا بجلی بچت کی جانب اہم قدم ہوگا تا کہ گرمیوں میں بجلی طلب میں کمی اور سردیوں میں اس میں اضافہ ہو۔
وفاقی وزیر نے کہا تاکہ ملک میں بجلی کا یکساں استعمال ہو، کم سے کم بجلی بغیر استعمال رہے ، اس کے لیے ملک میں صنعتوں کا لگنا بہت اہم چیز ہے، وزیراعظم اس سلسلے میں چین کے ساتھ ری لوکیشن آف انڈسٹریز کا ایک اہم منصوبہ شروع کرچکے ہیں، جتنا زیادہ صنعتی استعمال بڑھے گا،اس سے لوڈ کا استعمال بہتر ہو اور آپ کے اخراجات کم ہوں۔اویس لغاری نے کہا کہ اسلام آباد اور پنجاب کی 5 کمپنیوں میں 3 ہزار 107 ارب کی بلنگ ہوتی ہے، اس میں صرف 100 ارب کا نقصان ہوتا ہے، پشاور، فاٹا، قبائلی اضلاع، سکھر، حیدآباد، کوئٹہ میں کل 11 سو ارب کی بلنگ ہوتی ہے اور 400 ارب کا نقصان ہوتا ہے، یہ وہ نقصان والے علاقے ہیں جن کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس کو بہتر کرکے ان علاقوں کو اب ہم نے ہٹ کرنا ہے اور نقصانات کو پورا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب 2013 میں ہماری حکومت آئی، ہم بجلی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے نئے پلانٹ لگائے، اس وقت امریکی ڈالر کی قیمت 100 روپے تھی، اس وقت صارف پر کپیسٹی چارجز کا بوجھ 10 روپے فی یونٹ تھا، جب امریکی ڈالر 200 روپے پر پہنچا، انٹرسٹ ریٹ بڑھا تو فی یونٹ 14 روپے پر پہنچا، جب ڈالر 300 روپے پر گیا تو فی یونٹ 18 روپے پر چلا گیا، اگر آج بھی 2018 کی سطح پر ڈالر اور شرح سود ہو تو بلوں میں 8 روپے فی یونٹ کی کمی ہوتی، 900 ارب روپے سالانہ کی بچت ہوتی۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت اوسط یونٹ 44 روپے کا ہے، ڈھائی کروڑ میٹرز تقریبا 90 فیصد صارفین میں سے کسی کو10 روپے، کسی کو 15روپے اور کسی کو 18 روپے کا یونٹ بھیچ رہے ہیں، مہنگ بجلی کو سستا کرکے دے رہے ہیں، اس کی قیمت کون ادا کر رہا ہے، اس کو وزارت خزانہ ادا کرتی ہے، آپ کے ٹیکس سے ادا کیا جاتا ہے اور وہ جنہیں ہم 44 روپے سے مہنگی فی یونٹ بجلی دے رہے ہیں، وہ بھی ان غریب صارفین کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
وزیر توانائی نے کہا کہ کمرشل صارف آج 75، 77 روپے کا فی یونٹ استعمال کر رہا ہے، وہ 30 روپے اضافی ادا کر رہا ہے، پاکستان کی انڈسٹری 244 ارب روپے کا بوجھ اٹھا رہی تھی، صنعتوں کی مقابلے کی صلاحیت ختم ہو رہی تھی، اس بوجھ کو کم کرکے 70 ارب تک لے لائے، اس کا بوجھ حکومت نے اٹھایا ہے، اس کو کراس سبسڈی میں کمی کہتے ہیں جس کے لیے بجٹ میں قدم اٹھایا۔
اویس لغاری نے کہا کہ ہم نے فکس چارجز کو بڑھا دیا ہے، فی یونٹ قیمت میں کمی کی ہے، اس سے بہتری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ جب وزارت سونپی گئی تو آئی پی پیز پر کام شروع کردیا، جب لوگوں کو پتا چلا تو انہوں نے اس پر آواز اٹھانا شروع کردی، ا نہوں نے آئی پی پیز پر پریشر ڈالا، جو بات منسٹری کھل کر نہیں کرسکتی تھی، انہوں نے کی، میں ان کا شکر گزار ہوں، ہمارے کچھ معاہدے عالمی سطح پر ضمانت یافتہ ہیں، ہمیں معاہدوں کے اندر رہتے ہوئے انہیں قائل کرکے بہتری کی طرف جانا ہے، ہم نے اس سلسلے میں اتنا کام کیا جتنا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، آئندہ ایک سے دو مہینے میں حکومت آئی پی پیز سے متعلق ایسی خوش خبریاں دے گی جہاں سب کے لیے ون، ون صورتحال ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ اگلے 10 سال میں 18 ہزار میگا واٹ بجلی مزید سسٹم میں آرہی ہے، وہ بجلی کونسی ہونی چاہیے پانی سے بننے والی فی یونٹ 30یا 20 روپے والی بجلی یا شمی توانائی سے بننے والی 11 روپے فی یونٹ بننے والی بجلی جس کی کل کے الیکٹرک سے بڈنگ کھولی ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں لوڈشیڈنگ ختم کرنی تھی، اس وقت کوئی مدد کو تیار نہیں تھا، چین نے مدد کی، اس وقت وہ بجلی گھر سستے تھے، جسطرح سے پچھلے پلانٹ کو دیکھنے کی ضرورت ہے، اسی طرح آئندہ کے پلانٹس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، اس کو ہم دیکھ رہے ہیں، اس میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ گھریلو صارفین سے 18 فیصد لیا جا رہا ہے ، اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، گیس پر کھانا پکانا، پانی گرم کرنا اور ہیٹر چلانا گیس ضیاع کرنیکا دنیا کا سب سے بڑا طریقہ ہے، یہ گیس کے ساتھ اور ملک کے ساتھ ظلم ہے۔انہوں نے کہا کہ ان سردیوں میں حکومت بجلی سستی کریگی تاکہ گیس کے بجئے آپ بجلی پر پانی گرم کریں، ہیٹر چلائیں، تاکہ بجلی کی مانگ بڑھے، اس کی قیمت کم ہو اور گیس کی طلب کم ہو۔