معمول یہی ہے کہ ایک فیصلہ سنانے کے 15 دن کے اندر تفصیلی فیصلہ منظر عام پر آجاتا ہے، 15 دن کے باوجود اب تک تفصیلی فیصلہ کیوں نہیں جاری ہوا؟۔ وفاقی وزیر کی پریس کانفرنس
لاہور ( نیوز ڈیسک ) وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلہ آئین کے آرٹیکلز سے باہر جا کر لکھا گیا ہے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معمول یہی ہے کہ ایک فیصلہ سنانے کے 15 دن کے اندر تفصیلی فیصلہ منظر عام پر آجاتا ہے، سپریم کورٹ کے 2 ججز کے تفصیلی فیصلے میں انہوں نے جو اختلافی نوٹ لکھا اس میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کیا بات ہے کہ ابھی تک بقیہ جج صاحبان کی جانب سے تحریری فیصلہ جاری کیوں نہیں کیا گیا؟۔
وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین خان کی جانب سے جو تفصیلی فیصلہ دیا گیا کسی کو اس پر حیرانی نہیں ہوئی، ججز نے اختلافی نوٹ میں اس بات پر سوال اٹھایا کہ 15 دن کے باوجود تفصیلی فیصلہ کیوں نہیں جاری ہوا؟ یہ بات بھی درج ہے کہ پی ٹی آئی اس میں شامل نہیں تھی، جنہوں نے عدالت میں کوئی درخواست جمع نہیں کروائی جنہوں نے اپنا حق نہیں مانگا تو کس طرح سے ان کو ریلیف دے دیا گیا، آئین کے کچھ آرٹیکلز مخصوص نشستوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں ان سے باہر جاکر یہ فیصلہ دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنماء نے کہا کہ وہ لوگ کو مخصوص نشستوں پر منتخب ہوکر حلف اٹھا چکے ہیں ان کی رکنیت ختم کردی گئی مگر اس رکنیت کو ختم کرنے سے پہلے کے مراحل قانونی طور پر اپنی جگہ موجود ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والوں کو سیٹوں سے فارغ کردیں مگر حلف لینے سے پہلے کے مراحل کو قانونی طور پر نہیں دیکھا گیا، یہ بڑے اچھنبے کی بات ہے۔
عطا تارڑ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ سپریم کورٹ کے 2 جج یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 175 اور 155 میں جو دائرہ کار تفویض کیا گیا ہے، اس سے باہر جاکر اکثریت نے فیصلہ دیا ہے اور نا صرف یہ انہوں نے آرٹیکل 51، 63، 106 کی بات کی ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے آئین کے ان آرٹیکلز کو معطل کرنا پڑے گا اور حقیقت بھی یہی ہے، یعنی وہ لوگ جو سنی اتحاد کے ممبر ہیں وہ کہہ ہی نہیں رہے کہ ہم نے پارٹی تبدیل کرنی ہے، تو کیا وہ فلور کراسنگ ہوگی کہ وہ ایوان میں سنی اتحاد سے اٹھ کے پی ٹی آئی کی صفوں میں بیٹھیں گے، تو کیا یہ 62 ون ایف اور 63 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟۔