عدالت نے ڈپٹی کشمنر اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا، سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی
لاہور ( نیوز ڈیسک ) پاکستان تحریک انصاف نے مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے، جس پر عدالت نے ڈپٹی کشمنر اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس عابد عزیز شیخ نے پی ٹی آئی کے رہنماء اکمل خان باری کی درخواست پر سماعت کی، عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا، عدالت نے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔
بتایا جارہا ہے کہ درخواست پی ٹی آئی کے نائب صدر اکمل خان باری نے اپنے وکیل خرم لطیف کھوسہ کی وساطت سے دائرکی، درخواست میں پنجاب حکومت کو بذریعہ چیف سیکرٹری سمیت دیگرکوفریق بنایا گیا ہے، درخواست گزارنے مؤقف اپنایا ہے کہ 14 اگست کو لاہور کے مینار پاکستان پارک میں جلسہ کرنا چاہتے ہیں، جلسے میں کوئی ریاست مخالف سرگرمیوں نہیں ہوں گی، جلسہ پرامن اور قانون کے مطابق کرنا ہے۔
پی ٹی آئی رہنماء نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ جلسہ کرنا ہرشہری کا آئینی حق ہے لیکن پی ٹی آئی کو 2 سال سے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے، اس کے علاوہ درخواست گزار اور اس کی فیملی کو ہراساں کرنے سے بھی روکنے کا حکم دیا جائے۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے وفاقی دارالحکومت میں پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہ ملنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی، شعیب شاہین ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے جنہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹی ایل پی والے آئے تو 4 دن سڑکیں بند رہیں لیکن کوئی مقدمہ یا کوئی کچھ نہیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے ان کے خلاف مقدمہ درج کریں بلکہ ہم کہہ رہے ہیں ہمارا حق ہے، کمشنر نے کہا ہے ہائیکورٹ آرڈر کرے گی تو وہی دیکھیں گے‘۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’شعیب شاہین صاحب کوئی بات نہیں بن رہی؟‘، اس پر وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ ’نہیں سر! چیف کمشنر کہتے ہیں میں نے اپنا آرڈر کر دیا، اب ہائیکورٹ آرڈر کرے گی تو دیکھیں گے، تحریکِ لبیک والے تو محرم کے دوران ہی بغیر اجازت فیض آباد پر آ کر بیٹھ گئے، اُن کے خلاف تو کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی‘، اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ’چیف جسٹس آف پاکستان کا فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلہ آج بھی موجود ہے‘۔
اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ’ہم کہتے ہیں چالیسویں تک جلسہ نہ کریں‘، اس کے جواب میں وکیل پی ٹی آئی شعیب شاہین نے بتایا کہ ’ایف نائن پارک میں جماعت اسلامی کا جلسہ ہوا ہے‘، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ ’چہلم کب ہے؟ کیا 14 اگست نہیں منا رہے؟ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ہے لیکن ملک میں دیگر ایکٹیوٹیز بھی تو چل رہی ہیں، اس دوران ایک جلسہ کرنا ہے تو اُس میں کیا غلط ہے؟ این او سی ملنے کے ساتھ بیان حلفی دینا ہوتا ہے‘۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ’ہم نے ان کو بلایا بھی تھا‘، عدالت نے کہا کہ ’ساتھ بٹھانے کا مقصد یہ تو نہیں تھا چائے کا کپ پلانا ہے، آپ نے آرڈر کرنا تھا، ایڈووکیٹ جنرل صاحب لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ہے لیکن بیلنس رکھیں، انہوں نے ایک جلسہ کرنا ہے، اس میں کیا غلط ہے؟‘، اس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ ’یہ چہلم کے بعد رکھ لیں، 25 اگست کے بعد جلسہ کرلیں‘، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’کیا 14 اگست کی ساری تقریبات ختم ہو گئی ہیں؟ ایسا نہ کریں‘۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ اجازت واپس لینے سے پہلے ان کو بلا تو لیتے‘، جواباً ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ’ہم نے بلایا تھا ان میں سے کوئی نہیں آیا‘، وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ’انہوں نے ہمیں نہیں بلایا بلکہ ہمارے کنٹینر اٹھا لیے، پھر 10 لاکھ لے کر واپس کیے، ٹی ایل پی کی بات ان سے کی تو انہوں نے کہا ٹی ایل پی نے کون سا ہم سے پوچھ کر کیا ہے‘۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ’سیاسی جلسہ ان کا حق ہے، ہم اس کیس میں حکم نامہ جاری کریں گے‘، اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف کمشنر اور درخواست گزار کو دوبارہ ملاقات کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ’چیف کمشنر کو ہم نے اِنہیں چائے پلانے کے لیے ملاقات کا نہیں کہا تھا بلکہ یہ ملاقات کریں اور اُس میں جلسے سے متعلق معاملات طے کریں، میں گزشتہ آرڈر والی ہدایات دہراتے ہوئے درخواست نمٹا رہا ہوں‘۔