عوام کو آج فکر نہیں کہ کون جیل میں تھا کون ہے کون جیل جائے گا، مہنگائی میں تھوڑی کمی آ رہی ہے، حکومت 5 سال میں مہنگائی کم کر دے تو یہ بڑی سیاسی کامیابی ہوگی۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جب فیصلہ کرتے ہیں تو ذہن میں رکھنا چاہیئے ہمارا مقابلہ کس سے ہے، سیاست پر ایک دوسرے سے اختلاف کریں مگر جیل بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی میں تھوڑی کمی آ رہی ہے، پانچ سال میں صرف ایک قدم میں کامیابی سیاسی طور پر بڑی کامیابی ہے، بجٹ پر صرف ہم سے ہی نہیں دیگر اتحادیوں اور اپوزیشن کو بھی اعتماد لیا جانا چاہیئے تھا کیوں کہ نیشنل چارٹر آف اکانومی بنایا ہے تو سب سے مشورہ کرنا ہوگا اگر وزیر اعظم سب کی رائے لیتے تو پاکستان کی سیاسی و معاشی جیت ہوتی۔
چیئر مین پی پی پی کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے تھا بجٹ اور پی ایس ڈی پی بننے سے پہلے اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو بھی دعوت دی جاتی اور ان کی تجاویز لی جاتیں، اس میں بہتری ہی ہوتی، ہم حکومت کو بری تجویز دے سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت ایسی کوئی تجویز مان سکتی ہے، ہمارا اشیاء پر سیلز ٹیکس جمع کرنے کا اختیار صوبوں کو دینے کا مطالبہ ہے، اگر صوبے ہدف حاصل نہیں کرتے تو اپنے بجٹ سے ہدف پورا کریں گے،سرپلس سیلز ٹیکس کی صورت میں صوبے اضافی ریونیو اپنے پاس رکھیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سب فروری میں الیکشن لڑ کر آئے ہیں اور جانتے ہیں کہ عوام کا اصل مسئلہ کیا ہے، عوام کا اصل مسئلہ ہماری سیاسی بیان بازی یا بیانیہ نہیں ہے، عوام کا مسئلہ نہ ہی سیاسی حمایت، سیاست اور سیاسی اختلاف ہے، ان کو فکر نہیں کہ کون جیل میں ہے، تھا اور جائے گا، عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان جیسے بنیادی مسائل کی فکر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس ملک کے عوام کو اگر کسی سیاسی مسئلے سے دلچسپی ہے تو وہ معاشی مشکلات، معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں دلچسپی ہے، عوام جب سیاستدانوں، حکومت یا اپوزیشن کی طرف دیکھتے ہیں، انہیں امید ہوتی ہے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اپنے مسائل ایک طرف رکھ کر عوام کے مسائل کو ترجیح دیں گے اور مل بیٹھ کر اور باہمی مشاورت سے ان کے مسائل کا حل پیش کریں گے۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ شہباز شریف نے بطور قائد حزب اختلاف اور وزیراعظم چارٹر آف اکانومی کی بات کی اگر ہم پاکستان کے اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو وہ چارٹر آف اکانومی کے بغیر ممکن نہیں، یہ چارٹر کہیں سے ڈکٹیٹ نہیں ہوسکتا، نہ ہی یہ ازخود فیصلہ ہوسکتا ہے، اگر چارٹر آف اکانومی بنانا ہے تو سب سے مشورہ کرنا پڑے گا، حکومت کو ایوان کے دونوں جانب بیٹھے رہنماؤں سے بات کرنا ہوگی، اگر ہم سب مل بیٹھ کر یہ چارٹر بنائیں تو اس سے عوام اور بزنس کمیونٹی کو ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کو بھی پیغام جائے گا کہ ہم نے ایک دو سال کا نہیں بلکہ 10، 20 سال کا پلان مل کر طے کیا ہے اور آئندہ جو بھی جماعت حکومت میں ہوگی وہ اسی پلان پر عملدرآمد کرے گی۔