سرویلنس سے متعلق بنائے گئی پالیسی کی کیبنٹ میٹنگ کی منظوری کے منٹسس اگلی سماعت پر پیش کریں .عدالت کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو حکم‘سڑکوں پر لگے کیمرے بھی خلاف قانون ہیں ‘400 سال پہلے وارنٹ کا تصور کیوں بنایا گیا کیا آپ نے 11 سالوں میں سی سی ٹی وی کے لیے کوئی وارنٹ نہیں لیا. عدالت کے آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس
اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائی کورٹ میں آڈیو لیکس کیس پر سماعت کے دوران جسٹس بابرستار نے قراردیا ہے کہ صرف پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہے، دیگر ملکوں میں بھی دہشت گری ہے لیکن ان ممالک میں رولز موجود ہیں، اگر کوئی بھی ٹیلی کام کمپنی فون ٹیپنگ میں معاونت کررہی ہے تو یہ غیر قانونی ہے، فون ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں.
آڈیو لیکس کے خلاف نجم ثاقب اور بشری بی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل منوراقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خفیہ ادارے کی طرف سے مجاز افسر ڈیٹا کی درخواست کرتا ہے جس پر عدالت نے استفسار کیا، آپ لائیو کال کو مانیٹر کرسکتے ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد 2013 میں نئی پالیسی آئی وزارتِ داخلہ نے ایک ایس او پی جاری کیاہے جس کے بعد آئی ایس آئی اور آئی بی براہ راست سروس پرووائیڈرز سے ڈیٹا لے سکتی ہیں جبکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ضرورت پڑنے پر ان ایجنسیوںسے ڈیٹا لے سکتے ہیں.
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ ایس او پی تو ایک سیکشن افسر نے جاری کیا ہے متعلقہ اتھارٹی کا ذکر نہیں وزارتِ داخلہ کے پاس یہ اختیار کیسے ہے اور کس قانون کے تحت یہ ایس او پی جاری کیا گیا؟. جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ وارنٹ کے بغیر لائیو لوکیشن کیسے شیئر کی جا سکتی ہے حکومت نے کس قانون کے تحت فیصلہ کیا کہ یہ ڈیٹا حاصل کرسکتے ہیں وزارتِ داخلہ کے ایک سیکشن افسر نے ایس او پی جاری کردیا اور سیکشن افسر کے ایس او پی کے تحت آپ ڈیٹا حاصل کرتے ہیں.
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے فون ٹیپنگ سے متعلق نہیں بتایا جو چیزیں بتائی ہیں یہ ان میں نہیں آتا ابھی اس دستاویز کی قانونی حیثیت بھی دیکھنی ہے پی ٹی اے کام کرنے کیا میکانزم ہے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی اے کے پاس سرویلینس کا کوئی اختیار نہیں اور نہ پی ٹی اے فون ٹیپنگ کرتی ہے. جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ڈویژن کے لکھنے پر آپ ڈیٹا ٹیپ کرسکتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میری انڈر اسٹینڈنگ کے مطابق کیبنٹ کی منظوری کے مطابق بعد ایسا ہوسکتا ہے عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ سرویلنس سے متعلق بنائے گئی پالیسی کی کیبنٹ میٹنگ کی منظوری کے منٹسس اگلی سماعت پر پیش کریں جسٹس بابر ستار نے پولیس کے وکیل سے استفسار کیا آپ کسی کے گھر بغیر وارنٹ جا سکتے ہیں جس پر وکیل نے جواب دیا پولیس بھی کسی کی سرویلنس نہیں کرتی سڑکوں پر لگے کیمرے بھی خلاف قانون ہیں جسٹس بابر ستار نے کہا لکل ایسا ہی ہے آپ اس کا ڈیٹا نہیں لے سکتے.
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا اگر میرے گھر چوری ہوتی ہے تو آپ سی سی ٹی وی فوٹیج کس قانون کے تحت لیں گے کیا آپ بغیر وارنٹ سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرسکتے ہیں جس پر پولیس کے وکیل نے جواب دیا کہ اگر کسی پرائیویٹ شخص کے پاس فوٹیج ہے تو پولیس اس کو حاصل کرسکتی ہے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ400 سال پہلے وارنٹ کا تصور کیوں بنایا گیا کیا آپ نے 11 سالوں میں سی سی ٹی وی کے لیے کوئی وارنٹ نہیں لیا جس پر پولیس وکیل نے کہا کہ اگر ثبوت ضائع ہونے کا خدشہ ہو تو وارنٹ کی ضرورت نہیں.
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد پولیس کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ جب کسی کے گھر جاتے ہیں تو وارنٹ کیوں لیتے ہیں کیا آپ نے کوئی قانون بنایا ہوا ہے کس قانون کے تحت سرویلنس ہوتی ہے قانون بنائیں گے تو لوگوں کو پتہ ہوگا کہ کس قانون کے تحت سرویلنس ہو رہی ہے یہاں عدالتوں کو نہیں پتہ کیا ہو رہا ہے صرف پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہے دیگر ملکوں میں بھی دہشت گری ہے لیکن ان ممالک میں رولز موجود ہیں.
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کیس کی سماعت ان چیمبر کرلیں جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ قانون بنا ہے یا نہیں اس کا ان چیمبر سماعت سے کیا تعلق ہے یہاں ججوںکے چیمبرز ٹیپ ہورہے ہیں آپ کی بات میں نے سن لی یہ نیشنل سیکورٹی کا مسلہ نہیں ہے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے قانون بنا ہوا ہے یا نہیں جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دوبارہ استدعا کی کہ چیمبر میں سماعت رکھ لیں آپ کو آگاہ کر دیں گے جسٹس بابر ستار نے کہا کیا میں آپ سے دہشت گردوں سے متعلق پوچھ رہا ہوں صرف قانون کا پوچھا ہے کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں ججوں کے چیمبر یا وزیراعظم ہاﺅس کی فون ٹیپنگ دشمن ایجنسیاں کرتی ہیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے.
ایڈیشنل اٹارنی جنرل مسلسل چیمبر میں سماعت کی استدعا کرتے رہے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ نیشنل سیکورٹی کا معاملہ نہیں آپ کی چیمبر سماعت کی درخواست مسترد کرتا ہوں میں نیشنل سیکورٹی کے سیکریٹ آپ سے نہیں پوچھ رہا چیمبرمیں سماعت کا مذاق شروع نہیں کریں گے جسٹس بابر ستار نے ٹیلی کام کمپنیز کے وکلا کو روسٹرم پر بلاکر استفسار کیا آپ بتائیں آپ ڈیٹا کیسے فراہم کرتے ہیں جب آپ کوئی ڈیٹا دیتے ہیں تو اس کا ریکارڈ بھی رکھتے ہوں گے جو کیبل ڈیٹا لے کر پاکستان آتی ہے آپ کا کسی کے ساتھ معاہدہ ہوگا کیا آپ کے علاوہ ڈیٹا تک رسائی کسی اور کو ہے؟.
ٹیلی کام کمپنی کے وکیل نے کہا کہ کمپنی کے علاوہ کسی کو ڈیٹا تک رسائی نہیں جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا ایجنسیوں کو ٹیلی کام کمپنیوں کی اجازت کے بغیر ڈیٹا تک رسائی ہے؟وفاقی حکومت نے ٹیلی کام آپریٹرز پر ڈیٹا دینے پر پابندی ختم کرنے کی استدعا کردی عدالت نے پوچھا کس نے آئی جی کو کہا ہے کہ وارنٹس نہ لیں کیا پارلیمنٹ بے وقوف تھی جس نے یہ قانون بنا دیا آپ نے 11 سال میں ایک دفعہ بھی عمل نہیں کیا ایک قانون ہے 11 سال میں ایک دفعہ بھی کسی نے ڈیٹا لینے کے لیے وارنٹ نہیں لیے.
وکیل ٹیلی کام کمپنی نے کہا کہ ڈیٹا فراہمی ٹیلی کام آپریٹرز کے لائسنس کے حصول کے لیے پی ٹی اے کی شرط ہے جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا جو ڈیٹا لیا جارہا ہوتا ہے اس سے متعلق آپ کو معلوم ہوتا ہے وکیل نے جواب دیا کہ ٹیلی کام آپریٹرز کو اس متعلق کچھ پتہ نہیں ہوتاٹیلی کام آپریٹرز پی ٹی اے کے کہنے پر یہ سسٹم لگاتے ہیں. جسٹس بابر ستار نے ٹیلی کام کمپنی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پی ٹی اے کی سسٹم لگانے کی ڈائریکشن کی خط وکتابت ریکارڈ پر لانی ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ لائسنس کی شرط ہے پھر بھی کوئی خط و کتابت ہے تو ریکارڈ پر لے آتے ہیں.
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ کام زبانی نہیں ہوتا بڑی تفصیلی ڈائریکشن ہوتی ہے اگر کوئی بھی ٹیلی کام کمپنی فون ٹیپنگ میں معاونت کر رہی ہے تو یہ غیر قانونی ہے فون ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں. جسٹس بابر ستار نے پی ٹی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ ایک ایسے سسٹم کی اجازت کیسے دے سکتے جس میں سرویلنس کی جا سکے سکیشن 57 کے تحت کوئی قانون نہیں بنایا گیا آپ سے پہلے بھی یہ کیس چلتا رہا ہے چیئرمین پی ٹی اے جو بتا کر گئے ہیں وہ ریکارڈ کا حصہ ہے.