آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے‘ ایسے کام چلانا ہے تو پارلیمنٹ بند کردیں، چیف جسٹس

صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟ آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی؟ ایمرجنسی تھی؟ الیکشن ایکٹ تو پارلیمان کی خواہش تھی۔ الیکشن ٹربیونلز تشکیل کیس کی سماعت میں ریمارکس

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانا لازم ہے؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا اب اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کوبند کردیں کیوں کہ آرڈینینس لانا پارلیمان کی توہین ہے، یہ ریٹائرڈ ججز کا قانون کب بنایا گیا؟ صدارتی آرڈیننس کے زریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جاسکتا ہے، آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی؟ ایمرجنسی تھی؟ الیکشن ایکٹ تو پارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی‘۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 2 رکنی بینچ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کررہا ہے، جسٹس نعیم افغان 2 رکنی بینچ کا حصہ ہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم راجا عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’کیس میں آئین کےآرٹیکل 219 (سی) کی تشریح کا معاملہ ہے‘، جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ’ہمیں کیس کی تھوڑے حقائق بتا دیں‘، وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ’14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ٹربیونلز کی تشکیل کے لیے تمام ہائیکورٹس کوخطوط لکھے، ٹربیونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، تمام ہائیکورٹس سے خطوط کے ذریعے ججز کے ناموں کی فہرستیں مانگی گئیں، خطوط میں ججز کے ناموں کے پینلز مانگے گئے‘۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’لاہورہائیکورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججز کے نام دیئے گئے، دونوں ججز کو الیکشن ٹربیونلز کے لیے نوٹیفائی کردیا گیا، 26 اپریل کو مزید 2 ججز کو بطور الیکشن ٹربیونلز تشکیل دیئے گئے، ان 4 ٹربیونلز کی تشکیل تک کوئی تنازع نہیں ہوا‘۔ اس دوران ہائیکورٹ کے لیے ’معزز‘ کا لفظ استعمال کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو روکتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’ہائیکورٹ کو قابل احترام کہہ رہے ہیں، یہ ججز کے لیے کہا جاتا ہے، انگریزی زبان انگلستان کی ہے، کیا وہاں پارلیمان کو قابل احترام کہا جاتا ہے، یہاں پارلیمنٹیرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے، ایک دوسرے سے گالم گلوچ ہوتی ہے، ہم چاہتے ہیں احترام ہو، الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے؟ کیا الیکشن کمیشن قابل احترام نہیں؟‘۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا، کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانا لازم ہے؟ چیف جسٹس اور الیکشن کمیشنر بیٹھ جاتے تو تنازعہ کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی جج سے ملاقات نہیں کرسکتے‘۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن سی نے بالکل واضح کردیا ہے، ہم نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتی فیصلوں پر حلف نہیں لیا، سپریم کورٹ نے جب جب آئینی تشریح کیں، پیچیدگیاں پیدا ہوئیں‘۔