ملک کا موجودہ مالی سال میں مالیاتی خسارہ بجٹ کے ہدف سے زیادہ رہے گا‘ ٹیکس کی آمدنی میں تیس فیصد‘ نان ٹیکس ریونیو میں 90 فیصد کا اضافہ

خسارے میں اضافہ کی بڑی وجہ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 54 فیصد اضافہ ہے‘پرائمری انکم اکاﺅنٹ خسارہ4اعشاریہ8ارب ڈالر سے34اعشاریہ8 فیصد اضافے کے ساتھ 6اعشاریہ1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا. اکنامک سروے آف پاکستان

اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) ملک کا موجودہ مالی سال میں مالیاتی خسارہ بجٹ کے ہدف سے زیادہ رہے گا جس کی وجہ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں اضافہ ہے اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق بجٹ میں ملک کا مالیاتی خسارہ 6.5 فیصد رکھا گیا تھا تاہم یہ مالی سال کے اختتام تک اس ہدف سے اوپر چلا جائے گا جس کی وجہ قرضوں پر سود کی ادائیگی رہی.
ملک کی موجودہ سال کی ٹیکس کی آمدنی میں تیس فیصد کا اضافہ ریکارڈ کی گیا جب کہ نان ٹیکس ریونیو میں 90 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا آمدنی میں اضافے کے باوجود بجٹ خسارہ اخراجات کی وجہ سے بڑھ جائے گا جس کی بڑی وجہ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 54 فیصد اضافہ ہے. اکنامک سروے آف اکنامک پاکستان میں مالی سال 24 کے جولائی تا مارچ کے اعدادوشمار پر مبنی اہم نکات کے مطابق رواں مالی سال حقیقی جی ڈی پی میں 2.38 فیصد اضافہ ہوا جس سے مالی سال 23 میں 0.2 فیصد کی منفی نمو کو دانشمندانہ پالیسی مینجمنٹ، شراکت داروں کی دوبارہ آمد اور بڑے تجارتی شراکت داروں میں ریکوری ہوئی.
اکنامک سروے کے مطابق مالی سال 24 میں اقتصادی ترقی کا اہم محرک زراعت کا شعبہ رہا جس نے 19 سال میں سب سے بہتر کارکردگی دکھائی مالی سال 24 میں اس شعبے کی شرح نمو 6.25 فیصد رہی جس کی وجہ گندم، چاول اور کپاس جیسی اہم فصلوں میں 16.82 فیصد اضافہ ہے. مالی سال 24 میں صنعتی شعبے میں 1.21 فیصد، مینوفیکچرنگ میں 2.42 فیصد اور تعمیرات میں 5.86 فیصد اضافہ ہوا۔
جی ڈی پی کا 57.7 فیصد حصہ رکھنے والے خدمات کے شعبے میں 1.21 فیصد کی معتدل نمو دیکھنے میں آئی موجودہ مارکیٹ کی قیمتوں پر جی ڈی پی مالی سال 24 میں 26.4 فیصد اضافے کے ساتھ 106 ٹریلین روپے تک پہنچ گئی جو گزشتہ سال 84 ٹریلین روپے تھی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ اور شرح مبادلہ میں اضافے کی وجہ سے فی کس آمدنی 129 ڈالر بڑھ کر 1680 ڈالر ہوگئی.

سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کا تناسب مالی سال 23 کے 14.13 فیصد سے کم ہو کر مالی سال 24 میں 13.14 فیصد رہ گیا جس کی بنیادی وجہ سکڑتی میکرو اکنامک پالیسیاں اور سیاسی غیر یقینی صورتحال ہے مالی سال 24 میں بچت سے جی ڈی پی کا تناسب 13 فیصد تھا جو مالی سال 23 کے 13.2 فیصد سے قدرے کم ہے. آٹوموبائل سیکٹر کی نمو گزشتہ سال 42.2 فیصد کے سکڑاﺅکے مقابلے میں 37.4 فیصد گر گئی فارماسیوٹیکل میں 23.2 فیصد کی حوصلہ افزا نمو دیکھی گئی جبکہ گزشتہ سال اس میں 23.1 فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی فوڈ گروپ کی درآمدات میں 14.2 فیصد کمی آئی گروپ کی درآمدات کم ہو کر 6.3 ارب ڈالر رہ گئیں مالی سال 24 میں جولائی تا مئی پاکستان کا افراط زر کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) اوسطا 24.52 فیصد رہا.
مالی سال 2022-23 میں سی پی آئی 29.2 فیصد تھی جولائی تا اپریل کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ (سی اے ڈی) 94.8 فیصد کم ہو کر 200 ملین ڈالر رہ گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 3.9 ارب ڈالر تھا درآمدات میں نمایاں کمی کے باعث جولائی تا اپریل اشیاءکا تجارتی خسارہ 21.6 فیصد کم ہوکر 17.7 ارب ڈالر رہا جو گزشتہ سال 22.6 ارب ڈالر تھا. اکنامک سروے کے مطابق جولائی تا اپریل پرائمری انکم اکاﺅنٹ خسارہ 34.8 فیصد اضافے کے ساتھ 6.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو گزشتہ سال 4.6 ارب ڈالر تھا ترسیلات زر میں سال بہ سال 3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی اور جولائی تا اپریل ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 23.9 ارب ڈالر رہی جولائی تا اپریل مالیاتی کھاتوں میں 3.9 ارب ڈالر کی خالص آمد دیکھی گئی جس کی بنیادی وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اسٹینڈ بائی اگریمنٹ (ایس بی اے) اور دوست ممالک کی جانب سے رقوم کی آمد ہے جب کہ گزشتہ سال یہ رقم 0.6 ارب ڈالر تھی.
جولائی تا اپریل براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) 8.1 فیصد اضافے کے ساتھ 1.5 ارب ڈالر رہی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 1.3 ارب ڈالر تھی رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تقریبا 3.0 فیصد اضافہ ہوا مارچ تک ملکی مجموعی قرضہ 67.5 ٹریلین روپے تھا جس میں سے ملکی قرضہ 43.4 ٹریلین روپے جبکہ بیرونی قرضہ 24.1 ٹریلین روپے ریکارڈ کیا گیا 9.8 ٹریلین روپے (سال بہ سال 41 فیصد زیادہ) کے محصولات کی وصولی کے ساتھ ، مالی خسارہ جی ڈی پی کے 3.7 فیصد پر برقرار رہا جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت کا خسارہ 3.6 فیصد تھا.
اکنامک سروے میں بتایاگیا ہے کہ مجموعی اخراجات 37 فیصد اضافے کے ساتھ 13.7 ٹریلین روپے (گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 10.1 ٹریلین روپے) تک پہنچ گئے پرائمری بیلنس نے 503.8 ارب روپے کے خسارے کے مقابلے میں 1615 ارب روپے کا سرپلس حاصل کیا ٹیکس وصولیوں میں 29 فیصد اضافہ ہوا جب کہ نان ٹیکس محصولات میں 91 فیصد اضافہ ہوا ، تاہم جولائی تا مئی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی محصولات کی وصولی 8.1 کھرب روپے رہی ہے.