سب کو پتا ہے کون کیا کر رہا ہے، قانون سازی ہونی چاہیئے کہ لاپتا افراد کے معاملے میں سزائے موت ہو، بندہ بازیاب نہ ہوا تو سب کیخلاف کارروائی کیلئے لکھوں گا۔ دوران سماعت ریمارکس
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) اسلام اباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا شاعر احمد فرہاد کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کردیا۔ تفصیلات کے مطابق شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی، سماعت سننے کے لیے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھو کھر بھی کمرہ عدالت پہنچے، سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا پراگریس ہے؟‘، اس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ ’اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بنائی ہے کوشش جاری ہے‘، ایس پی آپریشنز نے عدالت کو بتایا کہ ’میں لاپتا فرد کی اہلیہ سے ملا ہوں جہاں تک مجھے پتا چلا ہے گھر کے باہر سے ان کو اٹھایا گیا، 15 گاڑیوں کی روٹ فوٹیجز لی ہیں، گاڑیوں کے نمبر رات ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھے جا رہے‘۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ’میں نے آئی جی کو بتایا تھا اگر کوئی لاپتا ہوگا تو زمہ داری ان پر ہو گی‘، سرکاری وکیل نے کہا کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں‘، جج نے ریمارکس دیئے کہ ’لاپتا افراد پر بات کرنے کی وجہ سے وہ اٹھا لیا گیا، باعث شرم بات ہے ہم سب کو پتا ہے کون کیا کر رہا ہے، جو غریب اٹھایا جاتا ہے مہینوں سالوں بعد واپس آتا ہے تو اس کی فیملی کہتی ہے اب کچھ نہ بولنا، میں تو کہتا ہوں قانون سازی ہونی چاہیئے کہ لاپتا افراد کے معاملے میں سزائے موت ہونی چاہیے، امید تو ہے کہ اگر ہم کہیں تو ایسا کوئی لاپتا افراد ایکٹ بنے گا‘۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ ’میں سیکریٹری دفاع کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رہا ہوں، سیکرٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع ذمہ دار ہیں، میرے سمیت ہر آدمی قابل احتساب ہے، اگر ضرورت پڑی تو وزیر اعظم کو بھی بلاؤں گا، اگر یہ اغواء کاروں کو طے نہیں کریں گے تو گھر جائیں گے، کیا باقی لا اینڈ انفورسمنٹ ایجنسیز کو خط لکھنے سے معاملہ حل ہو جائے گا، اگر بندہ بازیاب نہ ہوا تو سب کے خلاف کارروائی کے لیے لکھوں گا، سیکرٹری دفاع، آئی ایس آئی اور ایم آئی سے رپورٹ لے کر عدالت میں جمع کرائیں، مجھے پورا یقین ہے پولیس یہ کام ضرور کرے گی۔