ایک ارب دس کروڑ ڈالر گندم درآمد کی مد میں ملک سے باہر گئے‘مجھے سمری کے بارے میں پتہ ہے نہ ہی کوئی سمری دکھائی گئی.نگران وزیرفوڈ سیکورٹی‘ انکوائری کمیٹیاں یا تحقیقاتی کمیشن معاملے کو دبانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اس لیے قوم توقعات وابستہ نہ کرئے کہ اس سے کچھ نکلے گا.سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی
اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) وزیر اعظم شہباز شریف کے وزرات فوڈ سیکورٹی کے انچارج وزیر ہوتے ہوئے ملک میں 57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی 6لاکھ91ہزار136میٹرک ٹن گندم درآمد کیئے جانے کا انکشاف ہوا ہے رواں سال مارچ میں گندم کی درآمد کے وقت وزیر اعظم وزارت تحفظ خوراک کے انچارج وزیر خود تھے.
انہوں نے 3 اپریل کو وفاقی وزیر رانا تنویر کو قومی تحفظ خوراک کا اضافی قلمدان سونپا وزیر اعظم نے گندم درآمد کے معاملے پر سیکرٹری خوراک محمد آصف کو او ایس ڈی بنادیاتھا ”ڈان نیوز“کے مطابق سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال فروری تک 225 ارب 78 کروڑ 30 لاکھ روپے کی گندم درآمد ہوئی، مارچ 2024 میں57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی گندم درآمد کی گئی یوں رواں مالی سال مارچ تک 282 ارب 97 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کی کل 34 لاکھ 49 ہزار 436 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، جبکہ موجودہ حکومت کے پہلے ماہ 6 لاکھ 91 ہزار 136 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نگران دور میں27 لاکھ 58 ہزار 226 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی.
ایک سرکاری دستاویزکے مطابق مجموعی طور پر ملک سے ایک ارب دس کروڑ ڈالرگندم درآمد کرنے کی مد میں باہر گئے ملک میں گندم کے وافر ذخائر موجود ہونے کے باوجود نگران حکومت کے دور میں بڑے پیمانے پر گندم کی درآمد کے معاملے میں روز نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ موجودہ حکومت کی اب تک کی مدت میں بھی گندم کی درآمد کا سلسلہ جاری رہا نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑنے نجی ٹی وی سے انٹریو میں کہا ہے گندم کی درآمد سے ان کا کوئی تعلق نہیں گندم درآمد کی منظوری سال2023میں پی ڈی ایم حکومت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ای سی سی کے اجلاس میں دی تھی.
نگران حکومت میں وزیر فوڈ سیکورٹی کوثرعبداللہ نے کہا ہے کہ انہیں وزارت کی جانب سے کوئی سمری نہیں دکھائی گئی ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ نگراں دور میں وزیر کو دکھائے بغیر سمری منظور کرنے کا کلچر فروغ پا چکا تھا کوثر عبداللہ نے کہا کہ سیکرٹری اور اسٹیبلشمنٹ ایسا یہ کہہ کر کرتے تھے کہ نگراں وزیر تو 4 دن کے لیے ہیں ان کا کہنا تھا کہ میں گندم درآمد کرنے کی مخالفت کی تھی جبکہ نجی شعبے کو گندم منگوانے کی اجازت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے دی تھی.
یاد رہے کہ گندم درآمد میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے اور امکان ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ آئندہ ہفتے کابینہ کے سامنے پیش کی جائے تاہم سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیٹیاں یا تحقیقاتی کمیشن معاملے کو دبانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اس لیے قوم توقعات وابستہ نہ کرئے کہ اس سے کچھ نکلے گا.
ادھر ”جیو نیوز“کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو گندم درآمد تحقیقات کی ابتدائی تفصیلات سے آگاہ کردیا گیا سیکرٹری کابینہ ڈویژن، سیکرٹری خوراک نے ابتدائی تحقیقات سے وزیراعظم کو آگاہ کیا . رپورٹ کہا گیا ہے کہ گندم کے 70 جہاز 6 ممالک سے درآمد کیے گئے، پہلا جہاز پچھلے سال 20 ستمبر کو اور آخری جہاز رواں سال 31 مارچ کو پاکستان پہنچا، گندم 280 سے 295 ڈالر فی میٹرک ٹن درآمد کی گئی بتایا گیا وزارت خزانہ نے نجی شعبے کے ذریعے صرف 10 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی اجازت دی تھی تاہم رپورٹ میں دس میٹرک ٹن سے اوپر گندم درآمد کرنے کی منظوری دینے والوں کی نشاندہی نہیں کی گئی ”جیو نیوز“ نے سرکاری دستاویزات کے حوالے سے بتایاہے کہ یکم نومبر کو ای سی سی نے گندم سرکاری طور پر لانے کی سمری منظور کی تاہم ٹی سی پی کے 2 بار دیے گئے ٹینڈز پر کوئی بولی نہ لگی 10 لاکھ ٹن گندم لانے کی سمری منظور ہوئی مگر ٹی سی پی نے ٹینڈر 11 لاکھ ٹن کا دے دیا 19 دسمبر کو ویٹ بورڈ کے اجلاس میں گندم کی درآمد بڑھا کر 24 لاکھ ٹن کردی گئی، ای سی سی کی منظوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اجلاس کو بتایا گیا کہ 12 لاکھ ٹن گندم لے کر 24 جہاز پہنچ بھی چکے ہیں جبکہ اس کی منظوری ای سی سی نے یکم فروری کو دی تھی.
جیونیوز نے گندم درآمد کی پوری ذمہ داری نگران حکومت پر ڈالتے ہوئے پی ڈی ایم حکومت اور موجودہ حکومت کو کلین چٹ دینے کی کوشش کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ 23 فروری گندم درآمد کی مدت بڑھانے کی منظوری دی گئی جس کا مقصد مزید 15 لاکھ ٹن گندم ملک میں لانا تھا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف نے 4 مارچ کو حلف اٹھایا، اس کے بعد بھی پورا ماہ گندم ملک میں آتی رہی اس دوران وزارت کا چارج وزیراعظم شہبازشریف کے پاس تھا .
دوسری جانب نامعلوم وجوہات کی بنا پر شہبازشریف‘ اسحاق ڈار‘نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑاور نگران وزیراعلی پنجاب اور موجودہ وفاقی وزیردفاع کو انکوائری سے مبرا قراردیتے ہوئے نوٹس جاری نہیں کیئے گئے جبکہ سوشل میڈیا پر نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلی پنجاب کو انکوائری کے لیے طلب کی جانے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے انکوائری کمیٹی کے سربراہ اور فاقی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل نے گزشتہ روز جاری ہونے والے بیان میں ان خبروں کو ”گمراہ کن“قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ نہ تو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور نہ ہی نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کو طلب کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ دونوں کو طلب کیے جانے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں کامران علی افضل کا کہنا تھاکہ میں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کر رہا ہوں، میری انکوائری سے متعلق غلط خبریں چلائی جا رہی ہیں.