یہ سپریم کورٹ کا اجتماعی ایسا فیصلہ نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ کو معاملے پر سوموٹونوٹس لینا چاہیئے،حاضر سروس ججز پر کمیشن بنایا جائے اور سربراہی وزیراعظم کریں۔سینئر مرکزی رہنماء پی ٹی آئی حامد خان
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سینئر مرکزی رہنماء پی ٹی آئی حامد خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے کمیشن کا سربراہ ریٹائرڈ جج کو بنانے کا کہہ کر تاریخی غلطی کی ،یہ سپریم کورٹ کا اجتماعی ایسا فیصلہ نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ کو معاملے پر سوموٹونوٹس لینا چاہیئے،حاضر سروس ججز پر کمیشن بنایا جائے اور سربراہی وزیراعظم کریں۔
انہوں نے نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اعظم نذیر تارڑ کے کسی بیان پر یقین نہیں رکھتا، جو اس کا ہمیشہ سے کنڈکٹ رہا ہے، کوئی بھی ان کے بیان کو ماننے کو تیار نہیں، ان کی بات بالکل غلط ہے۔ سپریم کورٹ نے کمیشن کا سربراہ ریٹائرڈ جج کو بنانے کا کہہ کر تاریخی غلطی کی ہے ، اس کا خمیازہ ساری جوڈیشری بھگتے گی، آئندہ اس قسم کے معاملات سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ساتھ ہوسکتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا اجتماعی ایسا فیصلہ نہیں ہوسکتا، اگر واقعی فیصلہ کیا ہے تو بڑا افسوسناک ہے، وکلاء اس کی مخالفت کریں گے۔
سپریم کورٹ کے پاس آپشن تھا کہ سوموٹو ایکشن لیا جاتا، یہاں عدلیہ کو دھمکیاں دی گئی ہیں، ان ججز کو جنہوں نے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184کے تحت سوموٹو لینا چاہیئے تھا، سپریم کورٹ کو چاہیئے ججز کے خط پر سوموٹونوٹس لیا جائے۔وزیراعظم کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، وزیراعظم پر تو الزام ہے، کیونکہ ایجنسیاں تو خود وزیراعظم کے ماتحت ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ججز نے سپریم جوڈیشل کو خط لکھا ہے، اس پر اوپن کورٹ میں انکوائری ہونی چاہیئے۔ ہائیکورٹ کے 6 ججز نے تاریخی جرات کا کام کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان راؤف حسن نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشری اپنی Independence خود ایگزیکٹیو کے سامنے فروخت کررہی ہے جو کہ نہیں ہونا چاہئیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے اپنے خط میں واضح لکھا کہ ہم نے کئی بار چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سے یہ ذکر کیا کہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ہورہی ہے اور ججز پر پریشر ڈالا جارہا ہے گھروں میں کیمرے نصب کئے گئے ہے، اس سب کے باوجود چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیوں ایکشن نہیں لیا گیا؟ فل کورٹ بلا کر ایک تماشہ کیا گیا کہ وزیراعظم کسی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائیں گے، کیا کسی مجرم کو حق ہے کہ اپنے لئے خود جج بنیں؟ کیونکہ یہ معاملات اس وقت ہوئے جب شہباز شریف وزیراعظم تھے اور آج انصاف کے لئے اسی شہباز شریف سے ہم امید کریں؟ یہ انصاف کی توہین اور آئین قانون کا قتل ہے، ایک نام نہاد اور پلانٹڈ وزیراعظم خود یہ تعین کرےگا کہ وہ مجرم ہے یا نہیں! یہ کیا مذاق ہورہا ہے ہم اس چیز کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہے ہم ہر وہ قدم اٹھائیں گے جس کی ہمیں آئین و قانون اجازت دیتا ہے۔