چیف جسٹس عامر فاروق کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے پاس 6 ججز کا خط گیا مگر کیا ایکشن لیا گیا؟ چیف جسٹس نے کل فل کورٹ اجلاس کے بعد ثابت کیا کہ خط کے پیچھے کیا محرکات ہیں،کیا یوں کسی ریٹائرڈ جج کو انکوائری کے لیے بلایا جاتا ہے؟ آپ نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر ہمیں الیکشن میں دھکیلا اس کے باوجود ہم جیت گئے، اب ہم پورے پاکستان سے ایک تحریک کا آغاز کریں گے ، تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کی پریس کانفرنس
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) تحریک انصاف نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت سے متعلق سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کے بعد تحقیقات کیلئے حکومتی کمیشن کے قیام پر تحریک انصاف کی جانب سے شدید ردعمل دیا گیا ہے۔
جمعہ کے روز تحریک انصاف کے ترجمان اور قانونی ٹیم کی جانب سے اس حوالے سے تفصیلی پریس کانفرنس کی گئی۔ رؤف حسن، نعیم حیدر پنجوتھہ، شعیب شاہین، علی بخاری اور نیاز اللہ نیازی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے ختم کے معاملے پر تفصیلی ردعمل دیا۔ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے استعفی کا مطالبہ کردیا اور کہا ہے کہ ججز کے خط نے ثابت کردیا کہ نظام انصاف مفلوج ہوچکا۔
ترجمان تحریک انصاف رؤف حسن نے کہا کہ چھ ججز کا خط انتہائی اہمیت کا حامل ہے خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کو مخاطب کیا گیا ہے، 2 دن سے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا ہوا ہے مگر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا ۔ روف حسن نے جسٹس عامر فاروق کیلئے انتہائی سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سب سے بڑا ٹاؤٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پر بنائے گئے کیسز میں سب سے اہم کردار چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا ہے، جبکہ 6 ججز کے خط میں چیف جسٹس پاکستان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے بیڈرومز میں کیمرے لگائے گئے یہ انصاف کا اور قانون کا قتل ہے، فل کورٹ بلاکر تماشا کیا گیا ہے، کیا ایک نامزد ملزم کو حق ہے کہ وہ خود اپنے مقدمے میں جج بنے؟ کیا وزیراعظم خود طے کرے گا کہ وہ مجرم ہے کہ نہیں؟ ہم یہ مذاق نہیں ہونے دیں گے، 100 اور بھی ججز ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنی آپ بیتی بیان کریں، مزید ججز بھی بتائیں کہ ان پر کیا کیا دباؤ ڈالا گیا۔
اس موقع پر نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا کہ عمران خان کے گھر 26 گھنٹے آپریشن کیا گیا، چیف جسٹس خاموش رہے، 28 مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس میں پی ٹی آئی کارکنان پر حملہ ہوا، جنہوں نے حملہ کیا ان کے بجائے پی ٹی آئی ورکرز پر ایف آئی آر درج کرادی گئی۔ عمران خان اپنی سیکیورٹی میں عدالتوں میں پیش ہوئے انہیں سیکیورٹی بھی نہیں ملی، ہمیں کہا گیا عمران خان کی گرفتاری پر انکوائری کریں گے، کہاں گئی وہ انکوائری؟ انہوں ںے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں واٹس ایپ کے ذریعے فیصلہ کیا گیا، سائفر کیس کو لٹکایا گیا اور پھر فیصلہ محفوظ کیا گیا، 4 ہفتوں کے اندر سائفر ٹرائل کو ختم کیا گیا، لیول پلائنگ فیلڈ کی درخواست کا کیا ہوا؟ ہمیں لیول پلائنگ فیلڈ نہیں دی گئی، مخصوص نشستیں اور بلے کا نشان پی ٹی آئی سے جسٹس فائز عیسیٰ نے چھینا، سکندر سلطان راجہ کی پشت پناہی کون کررہا ہے؟ سائفر کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا کیوں نہیں بنا؟۔
اس موقع پر نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ اس خط نے ثابت کردیا کہ نظام عدم مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، چیف جسٹس عامر فاروق کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے پاس خط گیا مگر کیا ایکشن لیا گیا؟ آئین پاکستان اس وقت مفلوج ہوچکا ہے یہ پوری قوم کا سوال ہے۔ 2دن سے ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے، کیا یوں کسی ریٹائرڈ جج کو انکوائری کے لیے بلایا جاتا ہے؟ خط کے بعد نہ عامر فاروق چیف جسٹس رہ سکتے ہیں نہ قاضی فائز عیسٰی، آپ نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر ہمیں الیکشن میں دھکیلا اس کے باوجود ہم جیت گئے۔
ہم چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان سے فی الفور استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کل فل کورٹ اجلاس کے بعد ثابت کیا کہ خط کے پیچھے کیا محرکات ہیں، اب ہماری پریس کانفرنسز کا وقت گزر چکا اب ہم پورے پاکستان سے ایک تحریک کا آغاز کریں گے، خان صاحب کی ہدایت پر پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا۔