حکومتی کمیشن کا قیام 6 ججز کا خط کا معاملہ کھٹائی میں ڈالنے کی کوشش ہے

ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بننے والے تحقیقاتی کمیشن کی کوئی وقعت نہیں ہو گی، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، سلمان اکرم راجہ

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سلمان اکرم راجہ نے 6 ججز کے خط کے معاملے پر حکومتی کمیشن کے قیام کو مسترد کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق ملک کے سینئر قانون دان سلمان اکرم راجہ نے نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر تحقیقات کیلئے حکومتی کمیشن کے قیام پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی کمیشن کا قیام 6 ججز کا خط کا معاملہ کھٹائی میں ڈالنے کی کوشش ہے، ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بننے والے تحقیقاتی کمیشن کی کوئی وقعت نہیں ہو گی، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
اس معاملے پر سپریم کورٹ کو از خود نوٹس کے تحت خود ایکشن لینا چاہیئے تھا، لیکن جن پر الزامات عائد کیے گئے ہیں، سپریم کورٹ نے انہیں ہی کہہ دیا کہ وہ خود تحقیقات کریں۔
جبکہ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے استعفی کا مطالبہ کردیا اور کہا ہے کہ ججز کے خط نے ثابت کردیا کہ نظام انصاف مفلوج ہوچکا۔

جمعہ کے روز پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم رؤف حسن، نعیم حیدر پنجوتھہ، شعیب شاہین، علی بخاری اور نیاز اللہ نیازی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے ختم کے معاملے پر تفصیلی ردعمل دیا۔ ترجمان تحریک انصاف رؤف حسن نے کہا کہ چھ ججز کا خط انتہائی اہمیت کا حامل ہے خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کو مخاطب کیا گیا ہے دو دن سے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا ہوا ہے مگر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا کیوں کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سب سے بڑا ٹاؤٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پر بنائے گئے کیسز میں سب سے اہم کردار چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا ہے خط میں چیف جسٹس پاکستان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے بیڈرومز میں کیمرے لگائے گئے یہ انصاف کا اور قانون کا قتل ہے، فل کورٹ بلاکر تماشا کیا گیا ہے، کیا ایک نامزد ملزم کو حق ہے کہ وہ خود اپنے مقدمے میں جج بنے؟ کیا وزیراعظم خود طے کرے گا کہ وہ مجرم ہے کہ نہیں؟ ہم یہ مذاق نہیں ہونے دیں گے، 100 اور بھی ججز ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنی آپ بیتی بیان کریں مزید ججز بھی بتائیں کہ ان پر کیا کیا دباؤ ڈالا گیا؟ نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا کہ عمران خان کے گھر 26 گھنٹے آپریشن کیا گیا، چیف جسٹس خاموش رہے، 28 مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس میں پی ٹی آئی کارکنان پر حملہ ہوا جنہوں نے حملہ کیا ان کے بجائے پی ٹی آئی ورکرز پر ایف آئی آر درج کرادی گئی، بانی چیئرمین اپنی سیکیورٹی میں عدالتوں میں پیش ہوئے انہیں سیکیورٹی بھی نہیں ملی، ہمیں کہا گیا بانی چیئرمین کی گرفتاری پر انکوائری کریں گے، کہاں گئی وہ انکوائری؟ انہوں ںے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں واٹس ایپ کے ذریعے فیصلہ کیا گیا، سائفر کیس کو لٹکایا گیا اور پھر فیصلہ محفوظ کیا گیا، 4 ہفتوں کے اندر سائفر ٹرائل کو ختم کیا گیا، لیول پلائنگ فیلڈ کی درخواست کا کیا ہوا؟ ہمیں لیول پلائنگ فیلڈ نہیں دی گئی، مخصوص نشستیں اور بلے کا نشان پی ٹی آئی فائز عیسیٰ نے چھینا، سکندر سلطان راجہ کی پشت پناہی کون کررہا ہے؟ سائفر کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا کیوں نہیں بنا؟ نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ اس خط نے ثابت کردیا کہ نظام عدم مفلوج ہو کر رہ گیا ہے چیف جسٹس عامر فاروق کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے پاس خط گیا مگر کیا ایکشن لیا گیا؟ آئین پاکستان اس وقت مفلوج ہوچکا ہے یہ پوری قوم کا سوال ہے، دو دن سے ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے ہم چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان سے فی الفور استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا یوں کسی ریٹائرڈ جج کو انکوائری کے لیے بلایا جاتا ہے؟ خط کے بعد نہ عامر فاروق چیف جسٹس رہ سکتے ہیں نہ قاضی فائز عیسٰی، آپ نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر ہمیں الیکشن میں دھکیلا اس کے باوجود ہم جیت گئے۔ نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ چیف جسٹس نے کل فل کورٹ اجلاس کے بعد ثابت کیا کہ خط کے پیچھے کیا محرکات ہیں، اب ہماری پریس کانفرنسز کا وقت گزر چکا اب ہم پورے پاکستان سے ایک تحریک کا آغاز کریں گے ہم سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دروازے پر بھی جائیں گے خان صاحب نے کہا ہے کہ پورے ملک میں احتجاج کیا جائے۔