وائٹ ہاؤس کا وزیراعظم عمران خان کے بیان پر تبصرے سے گریز

ترجمان وائٹ ہاؤس جین ساکی نے وزیراعظم عمران خان کے امریکا کی غلامی نہ کرنے کے سوال پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں۔
واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس میں ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجامن جین ساکی سے صحافی نے عمران خان کے بیان پر سوال کیا تو جین ساکی نے جواب دیتے ہوئے تبصرے سے گریز کیا اور صرف اتنا کہا کہ پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، سفارتی ذرائع سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو جاری رکھیں گے۔
صحافی نے جین ساکی سے یہ بھی سوال کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن وزیراعظم عمران خان کی ٹیلی فون کال کی درخواست کیوں نہیں لے رہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ان کے پاس فون کال کی درخواست کے حوالے سے تفصیلات نہیں ہیں۔
پریس کانفرنس میں ترجمان وائٹ ہاؤس نے روس سے بھارت کی جانب سے رعایتی تیل خریدنے سے متعلق بھی ردعمل دیا۔ ترجمان نے کہا کہ اگر بھارت روس سے رعایتی تیل خریدتا ہے تو یہ روس پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں لیکن ایسا کرنا نئی دہلی کو تاریخ کے غلط رخ پر ڈال دے گا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے زور دیا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تمام ممالک ان پابندیوں کی پیروی کریں جو امریکا نے 24 فروری کے بعد روس پر لگائی اور تجویز کی ہیں، لیکن جب ان سے بھارت کی روس سے رعایتی تیل کی خریداری پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے ان پابندیوں کی خلاف ورزی ہو گی، تاہم انہوں نے بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ اس بارے میں سوچے کہ وہ یوکرین کے معاملے پر کہاں کھڑا ہونا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے وقت میں جب تاریخ لکھی جائے گی تو روس اور روسی قیادت کی حمایت، ایک حملے کی حمایت کے مترادف ہوگی جو یقیناً تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند روز میں بھارتی میڈیا کی خبر کی جانب سے یہ خبریں سامنے آٗئی تھیں کہ ملک کی سب سے بڑی آئل فرم انڈین آئل کارپوریشن نے (روس سے) 30 لاکھ بیرل خام تیل خریدا ہے جسے روس نے مروجہ بین الاقوامی نرخوں پر بھاری رعایت کے ساتھ فراہم کیا۔
بھارتی میڈیا نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ایک تاجر کے ذریعے یہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پہلی خریداری ہے۔ بھارت دنیا میں تیسرا سب سے بڑا تیل کا صارف اور درآمد کنندہ ہے اور اپنی ضروریات کا 80 فیصد درآمدات سے پورا کرتا ہے لیکن ان خریداریوں میں سے صرف 2 سے 3 فیصد روس سے آتی ہیں۔
روس سے بھارت کی مبینہ خریداری پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی میڈیا آؤٹ لیٹس نے نوٹ کیا کہ بھارت نے ابھی تک روس کی مذمت نہیں کی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ووٹنگ سے بھی پرہیز کیا ہے جس میں اس حملے کی مذمت کی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں