سینیٹ کے بعد اب چئیرمین سینیٹ کے انتخاب میں بڑا اپ سیٹ ہونے کا امکان

اسلام آباد (جنرل رپورٹر) : گذشتہ روز ہونے والے سینیٹ انتخابات کے بعد اب چئیرمین سینیٹ کے انتخاب میں بھی بڑا اپ سیٹ ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف 26 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے، پیپلزپارٹی دوسری ، مسلم لیگ ن تیسری جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی چوتھی بڑی جماعت بن گئی۔ سینیٹ میں نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق حکمران اتحاد کو کل 47 ارکان جبکہ اپوزیشن اتحاد کوسینیٹ میں53 ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی، سینیٹ چئیرمین شپ کے لیے صادق سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان بڑا مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق سنیٹ انتخابات 2021 کے غیر حتمی نتائج کے بعد سینیٹ کی نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق 100 ارکان کے ایوان بالا میں کل جماعتوں کی تعداد 13 ہوگئی ہے۔
ان جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف نے ایوان بالا میں 18 نئی نشستیں حاصل کرلیں جس کے بعد ان کی کل 26 نشستیں ہوگئیں، پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا سے 10، پنجاب سے 5، سندھ سے 2 جبکہ اسلام آباد سے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔

قومی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی سینیٹ میں 8 نئی نشستیں جیت گئی، 7 نشستوں پر سندھ جبکہ 1 نشست پر اسلام آباد سے کامیابی حاصل کی اس طرح پیپلزپارٹی 20 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا کی دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ مسلم لیگ ن نے پنجاب سے 5 نشستیں حاصل کیں، مسلم لیگ ن سینیٹ میں 18 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت بن گئی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی 6 نئی نشستیں جیت کر ایوان بالا میں 12 نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت بن گئی، اسکے علاوہ سینیٹ میں 2 نئے آزاد ارکان آنے سے تعداد ان کی مجموعی تعداد 6 ہوگئی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام نے بلوچستان سے 2 جبکہ خیبر پختونخوا سے 1 نشست پر کامیابی حاصل کی اور سینیٹ می تین نئی نشستوں کے ساتھ جے یو آئی کے ارکان کی تعداد 5 ہوگئی۔ ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ سے 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جس کے بعد ایوان بالا میں اس کے نمائندوں کی تعداد 3 ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ ایوان بالا میں نیشنل پارٹی،اے این پی اور پی کے میپ کی دو دو نشستیں ہو گئیں۔
مسلم لیگ ق،مسلم لیگ فنکشنل، جماعت اسلامی اور بی این پی مینگل کی سینٹ میں ایک ایک نشست ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق سینیٹ انتخابات 2021ئ کے بعد پاکستان تحریک انصاف، بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ق اور 4 آزاد ارکان کی حمایت پر مشتمل حکومتی اتحاد کو 47 ارکان جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جمیعت علمائے اسلام، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، بی این پی، اے این پی جماعت اسلامی اور 2 آزاد ارکان کی حمایت پر مشتمل اپوزیشن ارکان کی تعداد 53 ہوگئی ہے۔
ایسی صورت میں حکومت و اپوزیشن دونوں اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کی کوشش کریں گی، حکومت کی جانب سے اگر صادق سنجرانی امیدوار ہوئے تو پھر بھی اپوزیشن کے پاس 50 ووٹ ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار کی سینیٹ رکنیت معطل ہے، جماعت اسلامی کا اپنی ایک نشست پر غیر جانبدار رہنے کا امکان ہے جبکہ اے این پی کے بلوچستان سے منتخب سنیٹرعمر فاروق چئیرمین سینیٹ کے لیے صادق سنجرانی کو ووٹ دے سکتے ہیں کیونکہ بلوچستان میں اے این پی کا اتحاد صادق سنجرانی کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کی نسبت سینیٹ الیکشن پر واضح موقف رکھنے والی پیپلز پارٹی اپنی حکمت عملی سے گیم میں مکمل داخل ہوچکی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے پیپلز پارٹی اپنے امیدوار کا نام پی ڈی ایم کے سامنے رکھے گی اور یوسف رضا گیلانی پر اتفاق رائے ہونے کی صورت میں متفقہ امیدوار کا اعلان بھی ہوگا جبکہ ڈپٹی چیئرمین کے لیے اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن یا جے یو آئی کے ساتھ مشاورت ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں