ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیئے گئے تو دنیا تباہی سے دوچار ہوجائے گی.سی او پی 26

انسان اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں‘عالمی راہنماﺅں کو یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ لالچ اور خود غرضی کا راستہ اپنا کر دنیا کی اجتماعی تباہی کا راستہ ہموار کر لیا جائے.سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور عالمی راہنماﺅں کا کانفرنس سے خطاب

گلاسکو(انٹرنیشنل ڈیسک) عالمی راہنماﺅں نے موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیئے گئے تو دنیا تباہی سے دوچار ہوجائے گی اسکاٹ لینڈکے شہر گلاسکو میں جاری سی او پی 26کانفرنس میں سو سے زیادہ ملکوں کے سربراہان شریک ہیں. عالمی کانفرنس کے ذریعے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ماحول کو بچانے کے لیے فوری نوعیت کے اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا تباہی سے دو چار ہو جائے گی اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریز کے مطابق دنیا کے انسان اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں.
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکہ 2030 تک گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج میں پچاس سے باون فی صد تک کمی کر دے گا بارباڈوس کے وزیرِ اعظم میا موٹلی نے کانفرنس میں ان سمندری جزائر کی ترجمانی کرتے ہوئے جو موسمی تبدیلیوں کے باعث سمندر کی سطح بلند ہونے سے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیںعالمی راہنماﺅں سے مطالبہ کیا کہ انہیں یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ لالچ اور خود غرضی کا راستہ اپنا کر دنیا کی اجتماعی تباہی کا راستہ ہموار کر لیا جائے.
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ دو ہفتے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کے وعدوں کے علاوہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے لیڈر اس بات پر بھی غور کررہے ہیں کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں ترقی پزیر ملکوں کی مالی مدد کی جائے. میزبان برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے افتتاحی اجلاس میں اس مسئلے کی فوری اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ انسانیت ایک طویل عرصے سے اس مسئلے کے حل کی منتظر ہے اگر آج بھی ہم اس بارے میں سنجیدہ نہ ہوئے تو پھر اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں بہت تاخیر ہو جائے گی.
صدر بائیڈن نے پہلے روز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا کے سامنے یہ بات ثابت کردیں گے کہ امریکہ نہ صرف گفت و شنید کے لیے میز پر واپس آچکا ہے، بلکہ اس کاوش کی قیادت کی ایک ٹھوس عملی مثال پیش کرے گا. انہوں نے کہاکہ مجھے معلوم ہے کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوپایااور یہی وجہ ہے کہ میری انتظامیہ مصمم ارادے سے کام کر رہی ہے کہ محض الفاظ نہیں بلکہ موسمیات کی تبدیلی سے متعلق عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے ان نئے اہداف میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نئے وعدوں پر عمل درآمد شامل ہوگا تاکہ گزشتہ عالمی سمجھوتوں کو عملی جامہ پہنایا جاسکے.
انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں تین ارب ڈالر کی لاگت سے موسمیاتی تبدیلی سے آگہی کے حوالے سے کام کرنے کے صدر کے ہنگامی منصوبے کی رونمائی کی جائے گی جس میں مالیاتی اعانت اورحالات کے مطابق عملی اقدامات کو فروغ دینااور داخلی طور پر قانون سازی پر دھیان مرکوز رکھناشامل ہے جس کا مقصد امریکہ کے زیریں ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہے جب کہ 2030تک گرین ہاﺅس گیس کی آلودگی کو ایک گیگا ٹن کے تناسب سے کم کرنے کا ہدف حصول کیا جائے گا.
کانفرنس سے قبل موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں امریکہ کے خصوصی ایلچی جان کیری نے کہا کہ اس سربراہی کانفرنس کا مقصد عالمی سطح پر اس کے بارے میں آگہی کو اجاگر کرنا ہے امریکا کے سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ دنیا کے ممالک اس سلسلے میں اپنے ایسے اقدامات کا وعدہ کریں جو پورے عشرے پر محیط ہوں انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہمیں اس کے لیے فنڈز مختص کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پزیر ملکوں کی مدد کے بارے میں بھی کچھ کرنا ہوگا.
جان کیری نے کہا کہ جس طرح سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے بہت سے آباد علاقے سمندر کے نیچے آجائیں گے اور دنیا کے سامنے لاکھوں لوگوں کی ترک مکانی کا مسئلہ ہوگا اس کے ساتھ خوراک کی قلت کا بھی اندیشہ ہے ہم ان مسائل کی سنگینی کا ادراک نہیں کر رہے ہیں اس کے حل لیے عالمی سطح پر اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے. اس سے ایک دن قبل روم میں جی 20 ممالک کی دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر ان ملکوں کے لیڈروں نے اس صدی کے وسط تک کاربن کے اخراج کو ختم کرنے اور اس سال کے آخر تک بیرون ملک کوئلے کے پلانٹس میں سرمایہ کاری کو بند کرنے پر اتفاق کیا تاہم ملکوں کے اندر کوئلے کے استعمال کی مرحلہ وار کمی پر اتفاق نہیں ہو سکا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئٹرس نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ میں جی 20 کی عالمی حل کے سلسلے میں کی جانے والی سفارشات کا خیر مقدم کرتا ہوں تاہم روم میں ہونے والی اس کانفرنس سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں مگر امید کی کرن اب بھی باقی ہے.
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسوقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چین کی معیشت امریکہ کے بعد تقریباً دوسرے نمبر پر ہے اور اسکا کوئلے کی توانائی کے استعمال کے سبب کاربن گیس کا اخراج بہت زیادہ ہے، جو عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے انہوں نے کہا کہ ہر چند کہ چین کا کہنا ہے کہ 2060 تک وہ اپنا کاربن کا اخراج صفر پر لے آئے گا لیکن اسوقت تک نقصان کافی ہو چکا ہو گا.
انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کا موقف یہ ہے کہ چین خود کو ترقی پذیر ملک کہتا ہے لیکن اسکی اقتصادی ترقی اور دولت اتنی ہے کہ اسے ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہونا چاہئے اس لحاظ سے چین کو کوئلے کی توانائی کے سلسلے میں وہ رعایت نہیں ملنی چاہئے جو ان ملکوں کو مل رہی ہے جو واقعی ترقی پذیر ممالک ہیں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی اور تناﺅ بھی ماحولیات کی درستگی کی کوششوں پر اثرانداز ہو رہا ہے انہوں نے کہا اسی طرح بھارت کی جو اقتصادی ترقی کی کوششیں ہیں انکا بھی ماحولیات پر بھاری منفی اثر پڑ رہا ہے.
ماہرین نے کہا کہ اسی لئے اب اس ہدف کے ساتھ ساتھ زیادہ توجہ اس بات پر بھی دی جارہی ہے کہ جو بھی ماحولیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جب تک ان پر پوری طرح قابو نہ پالیا جائے تو اس کے منفی اثرات کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگاانہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا نے جس طرح انفرادی ملکوں اور بطور مجموعی عالمی معیشت کو متاثر کیا خاص طور پر غریب ملکوں کی معیشتوں پر جس طرح اثر ڈالا ہے اس کے اثرات سے کس طرح نمٹا جائے یہ بھی کانفرنس کے ایجنڈے کا ایک اہم موضوع ہے.
انہوں نے کہاکہ آئی ایف ایم نے اس مقصد کے لئے جو رقم رکھی تھی یا اسپیشل ڈرائنگ رائٹس جاری کئے تھے، توقع ہے کہ امیر ملک اس میں سے 100 بلین ڈالر کے مساوی رقم غریب ملکوں کو استعمال کے لئے دینے پر راضی ہو جائیں گے اور اس طرح یہ وسائل نہ صرف ان غریب ملکوں میں ویکسین لگانے کے لئے بلکہ اقتصادی پیداوار کو آگے بڑھانے کے لئے بھی استعمال ہو سکیں گے.

اپنا تبصرہ بھیجیں