”پگڑی اتار چورا، پگڑی اتار چورا“ شوکت علی کا وہ گانا جس پر حکومت نے فوراً پابندی عائد کر دی تھی

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پگڑی اتار چورا، پگڑی اتار چورا، گلوکار شوکت علی کا وہ گانا جس پر حکومت نے فوراً پابندی لگا دی، اس بات کا ذکر طاہر سرور میر نے بی بی سی پر اپنی رپورٹ میں کیا، انہوں نے لکھا کہ شوکت علی کو پنجاب کی آواز کہا گیا۔ اپنی کھلی اور طاقتور آواز سے جس طرح انھوں نے 1965 کی جنگ کے دورانساتھیوں اور ’مجاہدوں‘ کو پکارا وہ پکار، صدا اور للکار حب الوطنی کے لافانی نعرے کے طور پر فضاؤں میں آج بھی گونج رہی ہے۔شوکت علی کے آباؤ اجداد گجرات سے لاہور آباد ہوئے

اور پھر ہمیشہ کے لیے زندہ دلان ہو گئے۔ یہ زندہ دلی شوکت علی کی طبیعت کا ’برانڈ سمبل‘ تھا۔ ’بسم اللہ بسم اللہ‘ ان کا تکیہ کلام تھا۔ جس کسی سے بھی ملتے یا مخاطب ہوتے ’بسم اللہ‘ گفتگو کا آغاز اور انجام رہتا۔شوکت علی کی پیدائش اندرون لاہور بھاٹی میں ہوئی۔ ابھی دو سال کے تھے جب ان کے والد میاں فقیر محمد دنیا سے چل بسے۔ والد ٹیلر ماسٹر تھے اور پہلوانی کا شوق بھی رکھتے تھے لیکن ان کا سایہ بہت جلد بچوں کے سر سے اٹھ گیا۔ اس کے بعد یتیم بچوں کی ماں نے ہی اپنا اور والد دونوں کا کردار نبھایا۔وہ فنکار گھرانے میں پیدا ہوئے اور سُر اور تال ان کے خون کی تاثیر تھی۔ اپنے بڑے بھائیوں عنایت علی اور عاشق علی سے گانے کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ پھر 60 کی دہائی میں موسیقار ایم اشرف نے فلم ’تیس مار خان‘ میں ایک گیت گوایا جس کی استھائی یوں تھی ’پگڑی اتار چورا، پگڑی اتار چورا‘۔فلم میں یہ گیت اس وقت کے سپرسٹار علاؤالدین پر فلمبند ہوا اور مشہور ہو گیا۔ حکومت کی طرف سے اس گیت پر فوراً پابندی عائد کرنے کے احکامات دیے گئے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حکمرانوں میں پگڑی کسی صاحب اختیار کےپہناوے کا مستقل حصہ تھی لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اور شوکت علی کی مقبولیت کا آغاز ہو چکا تھا۔شوکت علی نے اپنے کیرئیر میں ریڈیو، ٹی وی، فلم، تھیٹر کے ساتھ ساتھ میلوں ٹھیلوں میں بھی گایا۔ اپنی ہنس مکھ، ملنسار اور عاجزانہ طبیعت کے باعث دوستوں کے حلقے میں بڑے مقبول تھے۔ 1964ء کے آخری دنوں میں یہ گیت ’ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ شوکت علی اور مسعود رانا نے گایا تھا۔ یہ گیت فلم ’مجاہد‘ کے لیےریکارڈ کیا گیا تھا جسے لکھا حمایت علی شاعر نے تھا اور اس کی دھن ترتیب دینے والے موسیقار خلیل احمد تھے جو ملی نغموں تیار کرنے کے ماہر تھے۔ستمبر65 کی جنگ میں یہ فلمی گیت ملی ترانے کی حیثیت اختیار کر گیا۔لگ بھگ 28 فنکاروں کے ہمراہ جی ایچ کیو کے زیر اہتمام آل پاکستان میوزک کانفرنس میں شامل فنکاروں نے جنگ کے دوران پاکستانی افواج کے حوصلوں کو بلند رکھنے میں اپنی کاوشیں پیش کیں اور شوکت علی اس سلسلے میں نمایاں رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں