ہم ایک سلیکٹڈ کو ماننے کے لیے تیار نہیں تو دوسرا سلیکٹڈ کیسے قبول کر لیں؟

لاہور (بیورو رپورٹ) اب تو بات لے دے پر آ ہی چکی ہے اور گلے شکوے بھی عروج پر ہیں۔پی ڈی ایم کی روح رواں دو بڑی پارٹیاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی آمنے سامنے آ چکی ہیں۔ جب سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا قرعہ پیپلز پارٹی کے نام نکلا ہے تب سے ن لیگ آرام سے بیٹھ ہی نہیں پا رہی اور یہ عہدے چھن جانے پر پیچ و خم کھا رہی ہے۔
اصولی طور پر یہ عہدہ ن لیگ کے پا س ہونا چاہیے تھااور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ عہدہ ن لیگ کو ہی دیا جائے گا مگر جب یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ نہیں بن سکے تو آصف علی زرداری نے جوڑ توڑ کر کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی جھولی میں ڈال دی اور اس پر موقف یہ اپنایا کہ ن لیگ نے جس امیدوار کو سامنے لایا تھا وہ بے نظیر کی شہادت کے واقعہ کے ذمہ داران میں سے ہے۔
لہٰذا اس اعتراض کے بعد انہوں نے باپ پارٹی کے چار ووٹ لے کر اپوزیشن کی سیٹ لے لی۔اسی موضوع پر جب ن لیگ کی راہنما حنا پرویز بٹ سے نجی ٹی وی چینل کی پروگرام اینکر عائشہ بخش نے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی تو ہمیں 2018سے کہہ رہی تھی کہ پنجاب میں حکومت بنا لیں ق لیگ اور دیگر لوگوں کے ساتھ اتحاد بنا کر آسانی سے پنجاب میں حکومت بنائی جا سکتی تھی مگر ہماری جماعت کا یہ موقف ہے کہ اگر صوبہ لینا ہے تو بغیر کسی سہارے کے لینا ہے اور اتحادیوں کی بیساکھیاں لے کر کسی بھی صورت میں حکومت نہیں بنانی۔
مریم نواز کے سلیکٹڈ کہنے کے بعد بلاول بھٹو نے جس قسم کا ردعمل دیا اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے حنا پرویز بٹ نے کہا کہ ہم ایک سلیکٹڈ یعنی عمران خان کو تو ماننے کے لیے آج تک تیار نہیں ہو سکے تو دوسرے سلیکٹڈ کو کیسے قبول کر لیں۔اس پر پروگرام اینکر نے سوال کیا کہ آپ کی نظر میں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی سلیکٹڈ ہیں تو اس پر حنا پرویز بٹ نے کہا کہ جن لوگوں کے لیے یہ بات کی گئی ہے وہ انہیں سمجھ آ گئی ہے اس پر میں اور کچھ نہیں کہنا چاہتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں