فیصل واوڈا کیس، زندگی بھر کیلئے کسی کو نا اہل کرنا آسان نہیں: چیف جسٹس

اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا تاحیات نااہلی کیس میں اہم پیش رفت، پی ٹی آئی رہنما نے دوہری شہریت کی بنیاد پر تاحیات نااہلی ختم کرنے کی استدعا کردی، چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

جسٹس منظور علی شاہ نے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا نے شہریت چھوڑنے کی درخواست کب دی تھی؟ وکیل وسیم سجاد نے بتایا کہ فیصل واوڈا نے امریکی سفارتخانے کو شہریت چھوڑنے کا کہا تھا، جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ کیا زبانی بیان پر شہریت چھوڑی جا سکتی ہے؟۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ بیان حلفی جمع کراتے وقت فیصل واوڈا کا امریکی پاسپورٹ منسوخ نہیں ہوا تھا، وکیل کا کہنا تھا کہ اصل سوال تاحیات نااہلی کے ڈیکلریشن کا ہے جو کمیشن نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے، شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بد دیانت یا بے ایمان نہیں کہا جا سکتا، زندگی بھر کیلئے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں، عدالتی ڈیکلریشن کا مطلب ہے شواہد ریکارڈ کئے جائیں، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کا معیار مقرر کر چکی ہے، فیصل واوڈا نے امریکی شہریت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی ہے، اس موقع پر فیصل واوڈا نے دوہری شہریت کے تحت نااہلی کی استدعا کر دی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت پر آرٹیکل 63 ون سی کا اطلاق ہوتا ہے، دوہری شہریت پر رکن صرف ڈی سیٹ ہوتا ہے تاحیات نااہل نہیں،عدالت نے مزید سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کر دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں