طالبان کے قبضے کے پیش نظر پلان نہ ہونے پر بھارت نے منہ کی کھائی، برسوں کی محنت بے کار گئی، بھارتی سفیر

نئی دہلی (حالات نیوز ڈسک) کابل پر طالبان کے قبضے کے پیش نظر متبادل پلان نہ ہونے پر بھارت نے منہ کی کھائی ، برسوں کی محنت بے کار ہو گئی،پاکستان کا خطے میں اثر و رسوخ بڑھا اورہماری نا اہلی کی وجہ سےاب ہماری سرحدیں بھی محفوظ نہ رہیں، سابق بھارتی سفیر اپنی ہی حکومت حکومت پر برس پڑے۔ تفصیلات کے مطابق سابق بھارتی سفیر راکیش سود نے مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے پیش نظر متبادل پلان نہ ہونے پر بھارت نے منہ کی کھائی اور برسوں کی محنت بے کار ہوگئی۔میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو میں راکیش سود نے چند سوالات کے انتہائی تلخ جوابات دیتے ہوئے مودی سرکاری کو کھری کھری سنائی۔افغانستان میں بھارتی سفیر کے ذمے داریاں نبھانے والے راکیش سود کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے ا?نے پر نقصان بھارت کا ہی ہے، اس کے دو پہلو ہیں، پہلا یہ کہ خطے میں پاکستان کا اثر و رسوخ بڑھے گا، پاکستان کے ساتھ موجودہ تعلقات کے باعث یہ ہمارے لئے بدشگون ہوگا، دوسرا یہ کہ افغانستان اگر عدم استحکام رہے گا تو ہندوستان کے لحاط سے علاقائی سیکیورٹی کے لئے یہ ب±را ہی ثابت ہوگا۔راکیش سود کا کہنا تھا کہ اسے ٹالا نہیں جاسکتا، کیونکہ امریکا نے اسے قبول کرلیا تھا، خود امریکا نے افغانستان کو پاکستان اور آئی ایس آئی کے حوالے کیا، سابق بھارتی سفیر نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ سال ہی طے ہوگیا تھا کہ اسلامک ری پبلک کے گنتی کے دن بچے ہیں۔افغانستان میں ہندوستان کے سابق سفیر راکیش سود نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کچھ نہیں کر سکتا، اگر ہندوستان نے سارے داوٓایک ہی متبادل پر نہیں لگائے ہوتے تو وہ کچھ کرنے کی حالت میں ہوتا، مگر اب حالات یہ ہیں کہ ہندوستان کو اپنے سفارت خانہ کے لوگوں سمیت مختلف کمپنیوں کے لیے وہاں کام کرنے والے افراد کو محفوظ طور پر نکالنے کے لئے پسینے بہانے پڑ رہے ہیں۔
راکیش سود کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ سالوں سے یہ بات صاف تھی کہ طالبان اقتدار میں ا?ئے گا، کم از کم دوحہ میں جاری بات چیت کے بعد تو یہ ظاہر ہو ہی گیا تھا، مگر بھارتی حکومت نے اسے نظرانداز کیا،سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت نے اسے نظرانداز کیوں کیا۔سابق سفیر کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کے بیان پر غور کریں، اس نے کہا کہ ہم سبھی فریقین سے بات کر رہے ہیں۔ ہم نے ان میٹنگوں میں حصہ لیا ہے جن میں طالبان بھی تھے۔ اس لیے سوال کسی ’سخت گیر‘ سے بات کرنے کا نہیں، افغانستان میں ہمارے کچھ مفادات ہیں اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وہاں موجود ہندوستانیوں اور ہمارے سفارتخانہ میں کام کرنے والوں کی سیکورٹی یقینی بنائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں