ریاض(حالات انٹرنیشنل ڈیسک) سعودی عرب کی فوجداری عدالت نے ایک امدادی کارکن عبدالرحمن الساضن کو 20 سال قید کی سزا سُنا دی ہے اور سزا مکمل ہونے کے بعد ان پر 20 سال کی سفری پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔ سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوشن نے الساضن پر انسداد دہشت گردی کے جرائم کے قانون کے تحت فردجرم عاید کی تھی۔ان پر دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور داعش کے اقدامات کو جائز قرار دینے،داعش مخالف جنگ میں شامل ممالک کے خلاف حملوں کے لیے جذبات کو مشتعل کرنے اور ان ممالک کی فوجوں پر حملوں کی حمایت کے الزام میں بھی فرد جرم عاید کی گئی تھی۔
سعودی حکام نے خصوصی فوجداری عدالت میں الساضن کے خلاف مذکورہ جرائم کے ثبوت پیش کیے تھے۔اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے ہی داعش کے حق میں ٹویٹس پوسٹ کی تھیں۔
العربیہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق الساضن نے 2014ء میں پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ داعش کو ان ممالک پر حملوں کا پورا پورا حق حاصل ہے جنھوں نے شام اور عراق میں اس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں داعش کے جنگجووٴں کو”مجاہدین“ قرار دیا تھا۔جولائی 2014ء میں ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ جو اسرائیلی عورتیں آرمی میں بھرتی ہوتی ہیں،انھیں اٹھا کراور مارکیٹ میں لاکر فروخت کردیا جائے۔تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے الساضن کی کڑی سزا پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا ہے :”ہمیں ان اطلاعات پر تشویش لاحق ہے کہ سعودی عرب میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے امدادی کارکن عبدالرحمٰن الساضن کو 20 سال قید کی سزا سنائی ہے اوریہ سزا بھگتنے کے بعد ان پر 20 سال کے لیے سفری پابندی عاید کردی ہے۔
“دوسری جانب سوشل میڈیا پر سعودی عرب کے شاہی خاندان کی دو شخصیات سمیت متعدد افراد نے اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ الساضن داعش کے ہمدرد تھے اور وہ کوئی امدادی کارکن نہیں تھے۔وہ اکثر سعودی عرب اور دوسرے ممالک پر داعش کو حملوں کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔سعودی شہزادے طلال الفیصل نے بھی الساضن کی بعض ٹویٹس شئیر کی ہیں۔
ان میں بھی ان صاحب نے داعش کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔
ایک اور سعودی شہزادے عبدالرحمٰان بن مسعد نے لکھا ہے کہ ”اگر سعودی عرب الساضن ایسے افراد کے خلاف کریک ڈاوٴن نہیں کرتا تواس طرح کے دوسرے لوگ اور داعش کے جنگجو تشدد کو بروئے کار لائیں گے اور خطے میں دہشت گردی کے حملے کرسکتے ہیں۔“ ان شواہد کے باوجود امریکا کا محکمہ خارجہ انھیں ایک امدادی کارکن قرار دے رہا ہے۔