اجیت ڈوول اور جنرل باجوہ میں بیک چینل مکالمہ اچھا امتزاج ہوگا سابق بھارتی سفیر نے خفیہ مذاکرات کی حمایت کر دی، اہم انکشافات

نئی دہلی(این این آئی) پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے سابق بھارتی سفیر نے پااکستان اور بھارت کے درمیان خفیہ مذاکرات کی حمایت کر دی ۔بھارتی میڈیا رپورٹ میں ستندر لامبا کے حوالے سے بتایا گیا جنہوں نے 2005 سے 2014 تک اسلام آباد کے ساتھ بیک چینل مذاکرات میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی نمائندگی کی تھی۔رپورٹ کے مطابق انہوں نے دعویٰ کیا کہ جموں وکشمیر کی حیثیت میں ہونے والی 2019 کی تبدیلیاں مستقبل کے مذاکرات پر منفی اثر نہیں ڈالیں گے۔واضح رہے کہ بھارت نے 2019 میں متنازع ریاست کو الحاق کرلیا تھا اور اسے دہلی کے

زیر اقتدار دو وفاقی اکائیوں میں تبدیل کردیا تھا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا موجودہ رپورٹ کیے گئے بیک چینل کو امریکا نے شروع کرایا ہے تو ستندر مسٹر لامبا نے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر دو طرفہ معاملہ ہوگا۔انہوں نے کہاکہ اس میں (قبل ازیں) کسی تیسرے فریق کی شمولیت نہیں تھی، بل برنس (سی آئی اے کے موجودہ چیف) نے لکھا ہے کہ بھارت ان کے ساتھ تفصیلات شیئر نہیں کرتا تھا اور وہ کوئی ثالثی کا کردار نہیں چاہتا ہے، اگر آپ مجھ سے پوچھتے تو اب بھی یہ شاید دو طرفہ بات چیت ہے حالانکہ یہ جو بائیڈن اثرو رسوخ سے متاثر ہوسکتا ہے۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا جموں وکشمیر کی حیثیت میں بدلاؤ آنے کے باوجود ان کی جانب سے کرایا گیا جموں و کشمیر سے متعلق معاہدہ ایک دہائی بعد بھی برقرار رہے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں بالکل ہم نے حکومت میں کسی مخصوص دور یا سیاسی حکومت کے لیے بات چیت نہیں کی تھی بلکہدونوں ممالک کے مستقبل کو دھیان میں رکھتے ہوئے مذاکرات کیے تھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو سائیڈ پر کریں تو بھی میرا ماننا ہے کہ ہماری سرحد پر جموں و کشمیر کی اہم ریاست مکمل ریاست بننے کی حقدار ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت خفیہ رکھنے کی ضرورت ہے، دونوںممالک میں سب سے بڑا چیلنج مقامی مفادات کے ساتھ ساتھ میڈیا لیکس بھی ہے جو مذاکرات کے اصل مقصد کو مسخ کر دیتا ہے، ایک بار مجھے یاد ہے ہمیں بات چیت کے لیے خصوصی طیارے سے لاہور جانے کا ویزا ملا تاہم اس وقت وزیر اعظم نے مجھ سے کہا کہ وہ نہ جائیں، ایک بڑے اخبار نے ایک بڑیسرخی کے ساتھ رپورٹ چلائی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان سے بات چیت جاری ہے جو حقیقت سے دور تھی اور الجھن کا باعث بنی، یہاں تک کہ جب کوئی ایجنڈا بھی نہیں ہوتا تو لوگ مذاکرات کے بارے میں غلط تاثر پیدا کرسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو مذاکرات کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا تاہمکسی کو کبھی کوئی مقالہ نہیں دکھایا جاسکا تھا’۔ستندر لامبا نے کہا کہ رازداری ضروری ہے مقامی رد عمل کو ختم کرنے کے لیے جو کسی معاہدے کے ہونے سے قبل ہی سامنے آتے ہیں، پاکستان کا تجارت کے بارے میں حالیہ فیصلہ اس کی عمدہ مثال ہے یہاں تک کہ جب پاکستان کے وزیر اعظم نے درآمدات کھولنے کافیصلہ کیا تو دوسروں نے اس پر اعتراض کیا اور اسے موخر کردیا گیا۔ستندر لامبا نے تصدیق کی کہ منموہن سنگھ کے دور میں پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے معاہدے پر دستخط ہونے کے قریب تھے’ہم نے تو یہ بھی سوچا تھا کہ اگر ہمارا معاہدہ ہوتاہے ہم چاہتے تھے کہ تمام سابق وزرائے اعظم کی نمائندگی کی جائے تاکہ ہم یہ ظاہر کرسکیں کہ وسیع اتفاق رائے موجود ہے تاہم جنرل پرویز مشرف کی جانب سے چیف جسٹس افتخار چودھری کو برطرف کرنے کے فیصلے نے معاملات کو پاکستان میں پٹری سےاتار دیا اور ہمارے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس پر دستخط نہیں ہوسکے، پاکستان اور بیرونی دنیا کے تجزیہ کاروں نے بھی اسے ناکامی کی ایک وجہ کے طور پر قبول کیا ہے’۔اگر جنرل قمر جاوید باجوہ اور بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے درمیان بات چیت ہوتی تو بھارتی نمائندے کو ان کا کیا مشورہہوگا؟ستندر لامبا نے دی ہندو کو بتایا کہ میرے پاس ان کے لیے کوئی تجویز نہیں، اگر سچ ہے تو مجھے یقین ہے کہ اجیت ڈوول اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان بیک چینل مکالمہ ایک اچھا امتزاج ہوگا، ہمارے تمام اختلافات کے پیش نظر وہ بات چیت کرنے والوں کی حیثیت سے یا بات چیت کی نگرانی کے لیے ایک اچھا امتزاج ہوں گے۔

موضوعات:

یہ کون لوگ ہیں؟

مجتبیٰ سے میری پہلی ملاقات بہت ڈرامائی تھی‘ میں ”میڈیا مارک“ کے نام سے پبلک ریلیشننگ اور ایونٹ مینجمنٹ کی ایک کمپنی چلاتا تھا‘ روز تین گھنٹے اس دفتر میں بیٹھتا تھا‘ میں ایک دن دفتر پہنچا تو میں نے باہر اینٹوں کے ڈھیر پر ایک نوجوان کو بیٹھے دیکھا‘ وہ مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا‘ میں ….مزید پڑھئے‎

مجتبیٰ سے میری پہلی ملاقات بہت ڈرامائی تھی‘ میں ”میڈیا مارک“ کے نام سے پبلک ریلیشننگ اور ایونٹ مینجمنٹ کی ایک کمپنی چلاتا تھا‘ روز تین گھنٹے اس دفتر میں بیٹھتا تھا‘ میں ایک دن دفتر پہنچا تو میں نے باہر اینٹوں کے ڈھیر پر ایک نوجوان کو بیٹھے دیکھا‘ وہ مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا‘ میں ….مزید پڑھئے‎

اپنا تبصرہ بھیجیں