کیاآب و ہواکی تبدیلی اور زمین کا بدلتاہوا درجہ حرارت أسمانی بجلی ذیادہ گرنے کی وجہ ہے

گھن گرج والی گھٹائیں موسلا دھار بارش، تیز ہواؤں اور آسمانی بجلی کا سبب بن سکتی ہیں۔ بجلی کڑکنے کی آواز سنیں تو فوراً کسی عمارت کے اندر محفوظ مقام پر چلے جائیں۔ یہاں تک کہ اگر بجلی کی چمک اور بادلوں کی گھن گرج کے درمیان وقفہ ہو، تب بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آپ محفوظ ہیں۔تحقیق کے مطابق کھیتوں میں کام کرنے والے مرد اور مندرجہ ذیل ألات کے قریب آسمانی بجلی کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں مثلأ ہاتھ میں فون رکھنا، ٹیلیفون لائن اور تاروں سے نہ دور رہنا کیونکہ دھات، سرکٹ مکمل کرکے بجلی گزارنے میں مددگار ہوتی ہے کوشش کیجئے بجلی سے چلنے والے دیگر آلات سے بھی دور رہیں لیکن خیال رہے کہ صرف امریکا میں سالانہ لاکھوں کروڑوں مرتبہ بجلی گرنے کے واقعات پیش آتے ہیں یعنی آسمانی بجلی گرنے سے ضروری نہیں کہ لوگ ہلاک ہوں۔امریکا میں گالفر اور مچھیروں پر بجلی گرنے کے زیادہ واقعات رونما ہوئے ہیں شاید اس کی وجہ گالف کی دھاتی چھڑی اور پانی میں بجلی گزرنے کی قدرتی صلاحیت کا ہونا ہے۔ اس لیے کھلے میدان میں جانے اور پانی سے دور رہیں۔اگر آسمان پر بجلی کڑک رہی ہے تو درخت کے نیچے کھڑے ہونے سے گریز کیجئے کیونکہ درختوں پر آسمانی بجلی گر سکتی ہے۔اسی طرح لوہے اور فولاد کے جنگلوں اور دھاتی پائپوں سے بھی دور رہیں.کسی بڑی عمارت یا کار کے اندر پناہ حاصل کریں کھلی جگہوں اور پہاڑی چوٹیوں سے دور رہیں اگر آپ کے پاس پناہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تو اپنے گھٹنوں اور کہنیوں کو تہہ کر کے بیٹھ جائیں اور سر کو اپنی گود میں چھپا لیں تاکہ آپ ممکنہ حد تک چھوٹا ہدف بنیں
اونچے اور الگ تھلگ درختوں کے نیچے پناہ نہ لیں اگر آپ پانی پر یعنی سمندر یا دریا میں ہیں تو ساحل پر پہنچیں اور جتنی جلدی ممکن ہو کھلے ساحلوں کی طرف بھاگیں پاکستان اور بھارت میں آسمانی بجلی گرنے کے حوالے سے عوام میں کئی توہمات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً گھر کا پہلا بچہ اس کا زیادہ شکار ہوتا ہے تو دوسری جانب بزرگ ہمیں سیاہ کپڑے پہننے سے منع کرتے ہیں لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔ ماہرین موسمیات اس قسم کے توہمات کو رد کرتے ہیں اور انہیں محض واہمہ ہی تسلیم کرتے ہیں البتہ ضروری ہے کہ آسمانی بجلی سے بچنے کی اہم تدابیر کو ضرور اپنایا جائے جو اوپر بتادی گئی ہے۔ آسمانی بجلی دلکش ہونے کے ساتھ خطرناک بھی ہے اور گرج چمک کا طاقتور فطری واقعہ تب سے ہی بنی نوع انسان کو مسحور کر رہا ہے یونانی متکلموں میں خدا کے باپ زیؤس کو آسمان کی بادشاہی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی طاقت اکثر بجلی کے جھٹکے کے طور پر تصور کی جاتی ہے۔ رومیوں نے یہ طاقت مشتری اور براعظم جرمن قبائل کو ڈونر سے منسوب کی جو شمالی جرمنوں کو تھور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ایک طویل وقت کے لئے طوفان کی بھاری طاقت ایک مافوق الفطرت طاقت سے وابستہ تھی اور انسان اس طاقت کے رحم و کرم پر محسوس کرتے تھے اور جب ہم بھی اپنے بچپن سے گذر رہے تھیں تو أسمانی بجلی گرج و چمکتی ہم بھی بابا فرید شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے منسوب کر تے تھے جب بجلی کی أوازسنائی دیتی تو” بابافرید شکرگنج رحمتہ اللہ علیہ” کہتے تھے جوکہ بابافرید الدین مسعود گنج شکر بارہویں صدی کے مسلمان مبلغ اور صوفی بزرگ تھے ان کو قرون وسطی کے سب سے ممتاز اور قابل احترام صوفیا میں سے ایک کہا گیا ہے۔ ان کا مزار پاک پتن پنجاب پاکستان میں واقع ہے بابافرید شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ قابل احترام صوفی بزرگ اللہ کے نیک بندوں تھے لیکن اس أسمانی بجلی سمیت جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے بس وہی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے وہی ذات ہے جو تمہیں آسمان سے گرجتی اور چمکتی ہوئی بجلی دکھاتا ہے۔ جس کے گرجنے چمکنے سے تم سہمے جاتے ہو، اس حال میں کہ اپنے دلوں میں بارش کی امید لیے ہوئے ہوتے ہو۔ وہی فضا اور ہوا میں بھاری بھر کم بادلوں کو اٹھائے اور چلائے رکھتا ہے جس بجلی کی کڑک سے تم ڈرتے ہو۔ درحقیقت وہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد کرتی ہے اور فرشتے اپنے رب سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں۔ اللہ جہاں چاہتا ہے بجلی کو گرنے کا حکم صادر کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر تدبیر اور منصوبہ بندی کرنے والا ہے۔ لیکن مشرکوں اور منکروں کی حالت یہ ہے کہ وہ پھر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف دین اسلام کے أب نے سائنس کی بنجر زمین کو سیراب کیا ہوا ہے جس سے معلوم پڑتا ہے کہ موجودہ روشن خیالی اور ٹکنالوجی دور نے ثابت کیا ہے کہ اس آسمانی بجلی کے بارے سائنسی تحقیقات 1752 میں کی گئی جو بنیامین فرینکلن کے تجربات نے یہ ثابت کیا کہ بجلی کا رجحان بجلی کا چارج ہے بجلی دلچسپ ہے لیکن خطرناک ہے جبکہ موسمیات کے تخمینے میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر روز تقریبا billion 9 بلین بجلی چمکتی ہے جن میں زیادہ تر اشنکٹبندیی علاقوں میں ہے۔ اس کے باوجود قدرتی آفات کے واقعات میں سال بہ سال اضافہ ہورہاہے زالہ باری، گرج چمک کے ساتھ طوفان، بجلی گرنا، ان میں اہم ہے۔یاد رہے کہ بجلی گرنے کے شکار عام طور پر دن میں ہی ہوتے ہیں، اگر تیز بارش ہو رہی ہو اور آسمانی بجلی کڑک رہی ہو تو ایسے میں پانی بھرے کھیت کے درمیان، کسی درخت کے نیچے اورکسی پہاڑی مقام پر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ موبائل کا استعمال بھی خطرناک ہوتا ہے۔ پہلے لوگ اپنی عمارتوں کے اوپر ایک ترشول جیسا اسٹرکچر لگاتے تھے جسے بجلی کا ڈرائیور کہا جاتا تھا، اس سے بجلی گرنے سے کافی بچاؤ ہوتا تھا۔ درحقیقت اس ترشول سے ایک دھات کا موٹا تار یا پٹی جوڑی جاتی تھی اور اسے زمین میں گہرائی میں دبایا جاتا تھاتاکہ آسمانی بجلی اس کے ذریعہ سے نیچے اترجائے اور عمارت کو نقصان نہ پہنچے۔

ویسے آسمانی بجلی عالمی سطح پر ایک بڑھتی ہوئی آفت ہے ایشیاء سمیت امریکہ میں آسمانی بجلی گرنے سے ہر سال 30، برطانیہ میں اوسطاً تین لوگوں کی موت ہوتی ہے، ہندوستان میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے یعنی اوسطاً دو ہزار۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں آسمانی بجلی کی پیش گوئی اور انتباہ کا نظام ڈیولپ نہیں ہو پایا ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ اس طرح بہت بڑے علاقے میں ایک ہی وقت میں مہلک بجلی گرنے کی اصل وجہ زمین کا مسلسل بدلتا ہوا درجۂ حرارت ہے۔ پہلے کبھی بہت تیز بارش نہیں ہوتی تھی لیکن اب ایسا ہونے لگا ہے اچانک بہت کم وقت میں تیز بارش ہو جانا اور پھر ساون و بھادوں کا خشک جانا یہی آب و ہوا میں تبدیلی کا المیہ ہے اور اسی کی جڑ میں بے رحم بجلی گرنے کے عوامل بھی ہیں۔ جیسے جیسے آب و ہوا تبدیل ہو رہی ہے، بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک اور بات، بجلی گرنا آب و ہوا میں تبدیلی کا برا نتیجہ تو ہے لیکن زیادہ بجلی گرنے سے آب و ہوا میں تبدیلی کے عمل کو بھی رفتار ملتی ہے۔ یاد رہے کہ بجلی گرنے کے دوران نائٹروجن آکسائیڈ خارج ہوتی ہے اور یہ ایک مہلک گرین ہاؤس گیس ہے۔ حالانکہ ابھی دنیا میں بجلی گرنے اور اس کی آب و ہوا میں تبدیلی پر ہونے والے اثرات کی تحقیق بہت محدود ہے لیکن بہت سی اہم تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی نے بجلی گرنے کے خطرے کو بڑھایا ہے۔ اس سمت میں مزید گہرائی سے کام کرنے کے لیے گلوبل کلائمٹ آبزرونگ سسٹم (جی سی او ایس)کے سائنس دانوں نے عالمی موسمیاتی تنظیم(ڈبلیو ایم او)کے تعاون سے ایک خصوصی ریسرچ ٹیم (ٹی ٹی ایل او سی اے)کی تشکیل کی ہے۔

زمین کے روزانہ بدلتے ہوئے درجۂ حرارت کا راست اثر فضا پر پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے شدید طوفان بھی بنتے ہیں۔ بجلی کا راست تعلق زمین کے درجۂ حرارت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ جیسے جیسے زمین گرم ہو رہی ہے، بجلی کی لپک اور زیادہ ہو رہی ہے۔ یہ بھی جان لیں کہ بجلی گرنے کا راست تعلق بادلوں کے اوپری ٹروپوسفیرک یا ٹروپوسفیرک آبی بخارات اور ٹروپوسفیرک اوزون کی پرتوں سے ہے اور دونوں ہی خطرناک گرین ہاؤس گیسیں ہیں۔ آب و ہوا میں تبدیلی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں اگر آب و ہوا زیادہ گرم ہوتی ہے تو گرج دار طوفان کم لیکن تیز آندھیاں زیادہ آئیں گی اور ہر ایک ڈگری گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین تک بجلی گرنے کی تعداد میں10 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے سائنس دانوں نے مئی 2018 میںکرۂ ہوا کو متاثر کرنے والے جزو اور بجلی گرنے کے تعلق پر ایک ریسرچ کی جس کے مطابق، آسمانی بجلی کے لیے دو اہم اجزا کی ضرورت ہوتی ہے: تینوں حالتوں(مائع، ٹھوس اور گیس) میں پانی اور برف بنانے سے روکنے والے گھنے بادل۔ سائنس دانوں نے 11 مختلف موسمیاتی ماڈلوں پرتجربے کیے اور پایا کہ مستقبل میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی نہیں آئے گی جس کا راست نتیجہ یہ ہوگا کہ آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔
ایک بات قابل غور ہے کہ حال ہی میں جن علاقوں میں بجلی گری، ان کا ایک بڑا حصہ دھان کی کاشت کا ہے اور جہاں دھان کے لیے پانی جمع ہوتا ہے، وہاں سے گرین ہاؤس گیس جیسے میتھین کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ موسم جتنا زیادہ گرم ہوگا، جتنی زیادہ گرین ہاؤس گیس خارج ہوگی، اتنی ہی زیادہ بجلی، زیادہ طاقت سے زمین پر گرے گی۔
’جیو فزیکل ریسرچ لیٹرس‘ نامی آن لائن جریدے کے مئی 2020 کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ال نینو- لا نینا، بحر ہند ڈائے اور جنوبی اینیولر موڈ کے آب و ہوا کی تبدیلی پر اثرات اور اس سے جنوبی نصف کرہ میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے برے اثرات کے طور پر زیادہ آسمانی بجلی گرنے کے اندیشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

معلوم ہو کہ مون وسون میں بجلی کا چمکنا بہت عام بات ہے۔ بجلی تین طرح کی ہوتی ہے- بادل کے اندر کڑکنے والی، بادل سے بادل میں کڑکنے والی اور تیسری بادل سے زمین پر گرنے والی۔ یہی سب سے زیادہ نقصان کرتی ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے بادل عام طور پر تقریباً 10-12 کلومیٹر کی اونچائی پر ہوتے ہیں جن کی بنیاد زمین کی سطح سے تقریباً 1-2 کلومیٹر اوپر ہوتی ہے۔ سطح پر درجۂ حرارت -35 ڈگری سیلسیئس سے -45 ڈگری سیلسیئس تک ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ جتنا درجۂ حرارت بڑھے گا، اتنی ہی بجلی پیدا ہوگی اور گرے گی۔
فی الحال ہمارے ملک میں بجلی گرنے کے تئیں لوگوں کو بیدار کرنا چاہیے جیسے کہ کس موسم میں، کن مقامات پر یہ آفت آ سکتی ہے، اگر ممکنہ صورت حال ہو تو کیسے اور کہاں پناہ لیں،لائٹنگ کنڈکٹر کا زیادہ سے زیادہ استعمال وغیرہ کچھ ایسے اقدام ہیں جن سے اس کے نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی بات دور دراز کے علاقوں تک عام آدمی کی شمولیت پر بات کرنا ضروری ہے کہ کیسے گرین ہاؤس گیسوں کو کنٹرول کیا جائے اورآب و ہوا میں غیرمتوازن تبدیلیوں کو قابو کیا جاسکے، ورنہ سمندری طوفان، آسمانی بجلی، بادل پھٹنے جیسے تباہ کن واقعات میں ہر سال اضافہ ہوتا جائے گا.

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-